اپنی اپنی رائے

جب بھی وبائی مرض پھیلتا ہے تو وہ ہر کسی کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتا۔ کسی کو مار دیتا ہے تو کسی کو نیم مردہ کر دیتا ہے جب کہ بعض اس سے کم متاثر ہوتے ہیں۔ گزشتہ دو سالوں سے دنیا پر حملہ آور کورونا وائرس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
میرے نزدیک ہمارے ملک کی سیاست بھی ایک وبائی بیماری جیسی ہے۔  یہ بعض لوگوں کو مار دیتا ہے۔ بعض کو نیم مردہ بناکر چھوڑتی ہے۔ ہم جیسے لوگ جو سیاست کا نام سن کر کانوں میں انگلیاں ڈال کر آواز روکنے کی کوششیں کرتے ہیں اس کی ہلکی سی آواز کو اپنے دماغ تک پہنچنے سے نہیں روک پاتے۔ چترال میں ان دنوں بلدیاتی انتخابات کا سیاسی بخار ایک سو دو درجے تک پہنچ گیا ہے جس کی تپش محسوس ہو رہی ہے۔ اس مرتبہ بہت سی پارٹیوں نے ویلج کونسل سطح تک اپنے نمائندے سامنے لا چکی ہیں اس لیے گھر گھر اپنی اپنی پارٹیوں کے امیدواروں کی کامیابیوں کی پیش گوئیاں یا امیدیں گرم گرم ہیں۔ میں نے بھی سوچا کہ کیوں نہ اپنی غیر سیاسی عقل و دانش کا اظہار کروں۔ آخر یہ لوگ نمائیندگی تو ہماری ہی کریں گے۔ فائدے اور نقصان  تھوڑی بہت میرے حصے میں بھی آئیں گے۔ ہم از کم اپنی تحصیل کے "سیاسی خدمت " کے لیے سامنے آنے والے امیدواروں کے بارے میں اظہار رائے کروں۔
تحصیل کونسل مستوج کے چیئرمین شپ کے لیے میدان میں اترے ہوئے حضرات کے حوالے سے چند جملے پیش قارئین ہیں۔
 تحصیل کے پہلے گاؤں ریشن سے  تعلق رکھنے والا امیر اللہ پی پی پی،  اپنی پارٹی وابستگی کے لحاظ سے مضبوط امیدوار ہے البتہ بونی کے  پرویز لال مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے مشترکہ امیدوار، فیض الرحمن اے این پی،  لاسپور سے  آزاد امیدوار سہروردی خان اور سید ناصر علی شاہ  ان کے ووٹ گھٹانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
بونی ہی سے سردار حاکم پی ٹی آئی کے چرون یو سی میں ووٹ خاص طور پر اور تحصیل سطح پر عام طور پر پرویز لال اور فیض الرحمن اے این پی کے  امیدوار کے حصے میں بھی آئیں گے اور اسے کافی متاثر کریں گے۔ لاسپور، مستوج اور یارخون میں سہروردی خان کو زیادہ ووٹ پڑنے کی امید ہے کیونکہ سہروردی پسماندہ یو سی سے امیدوار ہے بشرط کہ سید ناصر علی انتخابات سے دستبردار ہوگئے ورنہ دونوں گھاٹے میں رہیں گے۔ مستوج سے محسن حیات بھی میدان میں ہے۔ وہ بھی پی پی پی اور پی ٹی آئی کے ووٹ متاثر کرنے میں حصہ لے گا۔ یارخون سے محمد وزیر خان اور زار بہار کے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کی خبر ہے جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ یوں پی ٹی آئی کے تین امیدوار میدان میں ہیں جن میں سے دو کاغذات واپس لیں گے۔ ان کے علاؤہ بھی تین اور امیدواروں کے نام لسٹ میں موجود ہیں جن کے بارے میں مجھے معلوم نہیں کہ ان کی سیاسی وابستگی کس سے ہے یا نہیں ہے۔
دیکھنے میں تو تحصیل مستوج میں پی پی پی اور پی ٹی آئی کا ٹف مقابلہ نظر آتا ہے تاہم آزاد امیدوار سہروردی خان کو بھی کمزور خیال کرنا غلط فہمی ہوگی۔ 
چونکہ علاقے کی سیاست قومیت اور برادری کے گرد بھی گھومتی رہی ہے۔ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ جو بندہ بظاہر کسی پارٹی میں شامل ہے وہ اپنی برادری کے امیدوار کو نظر انداز کر جائے ما سوا بہت ہی جنونی پارٹی وابستگی رکھنے والوں کے۔ لہذا یہاں قومیت بھی بڑا کردار ادا کرے گی۔ 

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی