جمہوریت یا بادشاہت؟

میری عمر 73 سال کی ہے۔ گویا پاکستان ڈیڑھ دو سال مجھ سے بڑا ہے۔ پاکستان کی پیدائش، بچپن اور لڑکپن جس خلفشار سے گزرے میری زندگی میں ایسے واقعات پیش نہیں ائے، الحمدللہ! والدین کی پر شفقت نگہداشت حاصل رہی۔ میں دنیا سے بے خبر تھا۔ 9 سال کی عمر کو پہنچتے میں نے مارشل لاء کا نام سنا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ پہلا مارشل لا تھا اور اس کا سبب ہماری سیاسی قیادت تھی کیونکہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک کی قیادت کی جنگ شروع ہوئی تھی۔ یہاں تک غلام محمد جیسے شخص کو گورنر جنرل بنا دیا گیا جو جسمانی لحاظ سے معذور تھا۔ ایک غیر ملکی خاتون کے ہاتھوں پاکستان چل رہا تھا ۔ ایک بیوروکریٹ کو صدر بننے کا موقع دیا گیا۔ ملک کا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا تھا ۔
1967 میں ذولفقار علی بھٹو نے اپنی پارٹی بنائی اور فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے خلاف میدان میں کود پڑا۔ عوام کو اکسایا۔ خاص طور پر کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کو متحرک کیا۔ گھیراؤ جلاؤ اور فسادات شروع ہوئے۔ ایوب خان ملک جنرل یحیٰی خان کے سپرد کرکے سبکدوش ہوگئے۔ جنرل یحییٰ خان نے مارشل لاء لگا کر ڈیڑھ دو سال حکومت کی اور تاریخ میں پہلی دفعہ شفاف انتخابات کرائے۔ نتیجہ مشرقی پاکستان کے شیخ مجیب الرحمٰن کے حق میں نکلا۔ شیخ کو حکومت بنانے کی دعوت نہیں دی گئی۔ بظاہر یحیٰی خان بحیثیت صدر اس کا ذمے دار تھا۔ در حقیقت ہس پردہ مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو کا کردار کار فرما تھا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کی حکومت بنانے کی راہ میں رکاوٹ بننے کا نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں برآمد ہوا۔ 
"ادھر ہم اُدھر تم" کہنے والے نے مغربی ٹکڑے پر اپنی حکومت بنائی جو غیر جمہوری تھی۔ وہ پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ، پھر صدر اور پھر وزیراعظم بنے۔ 1977 کے انتخابات کو دھاندلی کا نام دے کر ملک کی دوسری سیاسی پارٹیوں نے ہنگامہ آرائی کا سلسلہ شروع کیا۔ حالات قابو سے باہر ہوگئے تو جنرل ضیاء الحق کو مارشل لاء لگانے موقع ہاتھ لگا۔ بھٹو گرفتار ہوئے۔ کیس بن گیا اور پھانسی پر چڑھایا گیا۔
اس طویل مارشل لائی دور میں محمد خان جونیجو کی سربراہی میں پاکستان مسلم لیگ بنوائی گئی۔ اس دوران نواز شریف کا سیاسی جنم ہوا۔ اس وقت تک وہ بے گمنام آدمی تھے۔ آگے جاکر جونیجو کو ہٹاکر پارٹی پر قبضہ کر لیا۔ یعنی مسلم لیگ (نواز) پیدا ہوئی ۔
ضیاء الحق کی زندگی تک مسلم لیگ (ن) کی حکومت رہی ۔ ان کے ہوائی حادثے میں شہادت یا قتل کے بعد پی پی پی کی حکومت بینظیر بھٹو کی سربراہی میں ہم پر مسلط ہوئی۔ 1989 سے 1999 کے دس سالوں کے اندر پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) ایک دوسرے کو گرانے میں مصروف رہیں۔ انہوں نے دو دو مرتبہ نامکمل دورانیے کی حکومت کی۔ آخری نون لیگ کا دھڑن تختہ جنرل مشرف کے ہاتھوں ہوا۔ پھر امریکہ اور یورپی دوستوں کے شدید دباؤ پر جمہوریت ق لیگ کی تخلیق کے ساتھ بحال ہوئی ۔ یوں نو سال جنرل مشرف کی قیادت میں حکومت چلی جو نسبتاً بہتر اور عوام دوست حکومت تھی۔ اس دوران بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا۔ پی پی پی کی قیادت زرداری خاندان کے ہاتھ میں آ گئی یا فراڈ کے ذریعے زرداری کے ہاتھ میں دیدی گئی۔ نواز لیگ برائے نام حزب اختلاف کا کردار ادا کیا۔ 2013 میں نون لیگ برسر اقتدار تو آئی لیکن دوران حکومت نواز شریف کو عدالت نے نااہل قرار دیا۔ اس کی وزارت عظمیٰ چلی گئی تاہم ایک ڈیفکٹیو وزیر اعظم کے ذریعے نون لیگ نے اپنی حکومت کا دورانیہ پورا کیا۔ 2018 میں ملک کی حکمرانی عمران خان کے ہاتھ آئی، وہ بھی چند چھوٹی سیاسی ٹولیوں کی مدد سے۔ اس کے ساڑھے تین سال ابھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ اس کی حکومت گرانے کے لیے آپس کی دشمن پارٹیوں نے ایکا کیا۔  مبینہ طور ہرمقتدر حلقوں نے ان کو اکھٹا کیا اور ساتھ دیا۔ باہر سے مدد بھی آ گئی اور عمران خان کی حکومت کو چلتا کیا گیا۔ کیوں؟ ہر کوئی اپنے حق میں جواب ڈھونڈتا ہے البتہ عام پاکستانی اسے ملک و قوم کے خلاف بڑی گھناؤنی سازش قرار دیتا ہے۔
ہماری سیاسی تاریخ سے ہر کوئی باخبر ہے۔ اس کا خلاصہ پیش کرنے کا میرا مقصد یہ ہےکہ 1971 سے لے کر آج تک دو مارشل لاؤں کے علاؤہ اس ملک کا نظام کلی یا جزوی طور پر جن پارٹیوں کے ہاتھ میں رہا ان پارٹیوں کی قیادت بھی ایک ہی خاندان کے  افراد ہی کرتے رہے۔  پی پی پی بٹھو خاندان،پھر بٹھو زرداری خاندان کی کنیز رہی۔ گویا پی پی پی میں کوئی دوسرا لیڈر قیادت کا اہل نہیں تھا۔نون لیگ شریف خاندان ، جمیعت علمائے اسلام مفتی محمود خاندان اور اے این پی، عبدالغفار خان خاندان کے قبضے میں رہی۔ کیا پی پی پی، نون لیگ، جے یو آئی اور اے این پی میں کوئی ایک رہنما بھی ایسا نہیں تھا جو ان جماعتوں کے سربراہ بنتے؟ کیا یہ جمہوریت ہے یا جمہوریت کی آڑ میں شخصی نظام حکومت ہے؟
جب تک ان سیاسی پارٹیوں کے اندر جمہوریت نہیں آتی تب تک ملک میں جمہوری نظام نہیں آ سکتا۔ پاکستان میں کرپشن بھی سیاسی پارٹیوں پر مخصوص خاندانوں کی اجارہ دری کا نتیجہ ہے۔ اگر پارٹیوں کی قیادتیں باقاعدہ آزاد اور شفاف انتخابات کے ذریعے وجود میں آتیں تو جمہوری طرز حکومت بھی پروان چڑھتی کیونکہ مخلص اور قابل رہنما سامنے آتے۔ لہذا ہمارا نظام جمہوری نہیں تھا، نہیں ہے اور نہیں ہوگا تا آنکہ پارٹیوں کے اندر موجود باصلاحیت، مخلص اور محب وطن رہنماؤں کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور نہیں آتی۔ اب تک ہم ہر چند مخصوص خاندانوں کی بادشاہت مسلط رہی ہے۔ اسے جمہوریت کا نام دینا قوم کو بے وقوف بنا کر ملک کو لوٹنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔



Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ