بونی ہسپتال

پہلے یہ تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال تھا۔ اپر چترال ضلع بننے کے بعد اسے ضلعی مرکزی ہسپتال کی حیثیت حاصل ہونا تھی لیکن ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ اس وقت میں اسے کوئی نام نہیں دے سکتا۔ اس لیے بونی ہسپتال لکھ ڈالا۔ امید ہے کہ سال روان کے آخر تک اس ہسپتال کے اندر تعمیرات مکمل ہو جائیں گی۔ ممکن ہے اگلے سال تک آسامیاں منظور ہو جائیں گی اور صحت کا یہ مرکزی ادارہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی حیثیت پاکر خدمات شروع کرے گا۔
ڈیڑھ دو سال پہلے اس کی مخدوش حالت پر لکھا تھا۔ اس وقت اس کی عمارت کھنڈرات کا نقشہ پیش کر رہی تھی۔ چار دیواری مکمل طور پر گر چکی تھی۔ رات کو آوارہ کتوں کا یہاں راج ہوا کرتا تھا۔ ہسپتال کی توسیعی منصوبے کے تحت بننے والی عمارت کے لیے کھدائی کرکے سارا ملبہ زیر استعمال وارڈوں اور رہائشی مکانات کی دیواروں کے ساتھ جمع کیا گیا تھا۔ 
آج جب ہسپتال کی عمارت کے اندر داخل ہوا تو نقشے کو بدلا ہوا پایا۔ چار دیواری بن چکی ہے۔ گیٹ لگا ہے۔ ایمرجنسی اور زچہ بچہ مرکز کے سامنے کچی زمین پختہ ہو چکی ہے۔ کار پارکنگ بن رہی ہے۔موجودہ عمارت کی خصوصی مرمت جاری ہے۔ زیر تعمیر توسیعی عمارت تکمیل کے آخری مرحلے میں ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ سال روان کے اختتام تک تعمیری کام مکمل ہو جائے گی۔ اگلے سال کے دوران آسامیوں کی منظوری، مشینوں اور فرنیچر کی خریداری کا مرحلہ بھی طے ہو جائے گا۔

اس وقت ہسپتال  درست معنوں میں شفا خانہ لگ رہا ہے۔ ہسپتال کی بہتر نقشہ ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ اور ڈی ایچ او صاحب ضلع اپر چترال کی اچھی کارکردگی کی گواہی دے رہا ہے۔ عمارت کا رنگ و روغن دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔عمارت کی مرمت اور تزئین و آرائش اس وقت جاری ہے اور بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ مثلاً
1۔ ہسپتال کے اندر سفیدہ کے چند کرم خوردہ درخت موجود ہیں جو ہسپتال کے اندر رہنے والوں اور عمارت کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ آج کل تیز آندھیاں چلتی ہیں اور درختوں کو جڑ سے اکھاڑ دیتی ہیں۔ خطرہ ہے کسی بھی وقت تیز ہوا  ان کرم خوردہ درختوں کو گرا سکتی ہے اور اللہ نہ کرے کوئی بڑا حادثہ پیش آ جائے، نیز ان درختوں سے پولین گرتا رہتا ہے جو ہسپتال کے مکینوں اور مریضوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ اس لیے ہسپتال انتظامیہ کو چاہیے کہ اس خطرے کو دور کرنے کا بندو بست کرے۔ ویسے بھی ہسپتال کے اندر پھلدار درختوں کی کمی نہیں ہے۔ لہذا غیر پھلدار درختوں کو ہٹانا مناسب ہے۔
ہسپتال کے اندر مالی اور خاک روپ کا کام توجہ طلب  ہے۔ ہسپتال کے سبزہ زار بدنما نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ مریض اور آٹینڈنٹس شاپنگ بیگ اور کچرے ادھر ادھر پھینک دیتے ہیں۔صفائی کے لیے کافی ملازمین کی ضرورت ہے۔ صفائی کا عملہ ناکافی ہونے کی وجہ سے صفائی کا فقدان ہے۔
2 ۔ ہسپتال کے پاس مناسب کھلی زمین اور پھل دار درختوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔  پھول اگانے، پھل دار درختوں اور سبزہ زاروں کی پرداخت کے لیے کم از کم دو مالیوں کی موجودگی لازمی ہے تاکہ ہسپتال صحت افزاء اور پرکشش جگہہ بن جائے۔
3۔ ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹروں کی کمی بھی اس کا بڑا مسلہ ہے۔ ایک اکیلی وومن میڈیکل آفیسر زچہ بچہ مرکز چلا رہی ہے۔ اسے دن رات ڈیوٹی پر حاضر رہنا پڑتا ہے۔ روزانہ اوسطاً پچاس ساٹھ مریضوں کا معائنہ کرتی ہے اور شبانہ روز چار چار  پانج پانج زچگی کے کیسز کرواتی ہے۔ پھر ایمرجنسی کے کیسز الگ سے دیکھتی ہے۔ اس طرح کی بھاری ذمے داری ایک لیڈی ڈاکٹر کے کندھوں پر ڈالنا انتہائی نامناسب ہے۔ ڈاکٹر کو بھی آرام، تفریح اور چھٹی کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹروں کا صحت مند اور تازہ دم رہنا مریضوں کی بہتر خدمات کا ضامن ہوتا ہے۔ محکمہ صحت  کے پی کے کو اس مسلے کی طرف سنجیدہ توجہ دینی چاہیے۔ 

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی