بھنگ کی کاشت پر سوالات"

میرے مضمون " بھنگ کی کاشت کی قانونی حیثیت" پر چند دوستوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان سے میری گزارش ہے کہ وہ اس بلاگ کو دوبارہ پڑھیں۔ میں نے کہیں بھی یہ نہیں کہا ہے کہ ہمیں پدر مادر آزادی دی جائے یا یہ کہ ہم اپنی مرضی سے کاشت کریں، روایتی طریقے کے مطابق پروسس کریں اور اپنی مرضی سے پیداوار کو بیچیں۔ میں نے سرکاری کنٹرول میں اس کی کاشت کی تجویز دی ہے۔ اگر سرکار کی منظوری سے یعنی لائسنس حاصل کرکے  کوئی آدمی اس کی کاشت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سرکار اسے غلط طریقے سے استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گی۔ 
چند بھائیوں کا خیال ہے کہ ہماری نسل اسے آزادانہ استعمال کرے گی اور تباہ برباد ہو جائے گی۔ان کا خیال ہے کہ یہ تہتر سالہ ریٹائرڈ ایجوکیشن آفیسر/ پرنسپل کو اس قوم کے بچوں کا بالکل بھی احساس نہیں ہے حالانکہ اس نے اپنی زندگی کا دو تہائی حصہ ان بچوں کی تعلیم و تربیت میں گزارا ہے۔
چند دوستوں نے اسمعیلی اماموں کے فرامین کا حوالہ دے کر بھنگ کو حرام قرار دیا ہے۔ شاید ان کو ایسا لگتا ہو کہ مضمون نگار امام سلطان محمد شاہ اور شاہ کریم کے فرامین سے ناواقف ہے۔

دوستو! مجھے اتنا انپڑھ اور بے حس مت سمجھیے گا۔ اس معاشرے کا میں نے گزشتہ ساٹھ سالوں سے بہت گہرا مطالعہ اور مشاہدہ کیا ہے۔ مجھے اپنے علاقے کی معاشی، علمی اور سماجی پسماندگی کی زیادہ فکر ہے بنسبت ان لوگوں کے جو اس علاقے سے باہر ہیں۔ میں نے اپنی زندگی کے کافی مہ و سال اپنے سماج کی فلاح و بہبود کے لیے کام میں لایا ہے۔ میں اپنا بنایا ہوا آشیانہ اپنے ہاتھوں کیسے جلا سکتا ہوں؟
نشہ کوئی بھی ہو انسان کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے مضر ہے البتہ کچھ زیادہ خطرناک ہوتے اور بعض کم۔ بھنگ کو کم خطرے والا نشہ قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس کے مضر اثرات بہت کم ہیں اور اسے چھوڑنا بھی آسان ہے۔ پھر بھی اسے بطور تفریح  استعمال کرنے کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ اپنے سماج سے شراب، ہیروئین، افیون، چرس، سگریٹ اور اس قسم کی دوسری چیزوں سے پاک رکھنا معاشرے کے افراد کی اجتماعی ذمے داری ہے۔ اب تک ہمارا معاشرہ اس معاملے میں ناکام رہا ہے اور سارا الزام پولیس اور انتظامیہ پر ڈال کر خود کو بری الزمہ قرار دیا ہے حالانکہ اپنی نئی نسل کی احسن  تربیت والدین اور اساتذہ کے ہاتھوں میں ہے۔ ان کے علاؤہ بچوں کو بری عادات و اطوار سے باز رکھنا معاشرے کی اجتماعی ذمے داری یے۔
1940 اور 1970 کے درمیانی عرصے میں بالائی چترال میں چرس کی فصل اگائی جاتی تھی اور اس کا کاروبار عام تھا۔ اس زمانے میں چرس پینے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ آج چرس نوشوں کی تعداد چار گنا بڑھ گئی ہے۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ چرس کی فصل اگانے سے ہمارے بچے نشے کے عادی ہو جائیں گے۔ بروغل اور ارکاری میں افیون کا استعمال زیادہ ہے حالانکہ اس کی مقامی پیداوار بالکل بھی نہیں ہوتی۔ سننے میں آتا ہے کہ چترال میں ہیروئین کا کاروبار بھی چل رہا ہے۔

چترال کے دور دراز علاقوں میں گندم، جو اور مکئی وغیرہ کی فی چکوارم پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک کاشتکار اپنی تھوڑی سی زمین پر سال بھر محنت کرنے کے بعد بھی نصف سال کے لیے پیداوار حاصل نہیں کر پاتا۔ اس لیے متبادل فصل کے بارے سوچنا ہوگا جو تھوڑی زمین پر زیادہ پیداوار دے سکے۔ میرے تجربے اور مشاہدے کے مطابق بھنگ ہی واحد فصل ہے جو دوسری فصلوں کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ پیداوار دے سکتی ہے۔ اگر کوئی اور فصل یہاں زیادہ فائدے مند ثابت ہوسکتی ہے تو ہم بھنگ کام نام بھی نہیں لیں گے۔

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی