شوق برف بینی اور سانحہ مری

مری میں سیاحوں کی دلخراش اموات سے ایک طرف ہم سب کے دل دکھی ہیں تو دوسری طرف مری کے ہوٹل والوں کا سیاحوں کے ساتھ بے درد سلوک کا سن کر ہمارا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ اس وقت ہم حالت ماتم میں بھی ہیں اور شرمندگی میں بھی ڈوبے ہوئے ہیں۔ اللہ پاک مرحومین کو جنت میں داخل کرے اور لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے!
سرکاری اداروں کی غفلت اور مری کے کاروباری لوگوں کے بارے میں جو کہا جا رہا ہے اس کی تفصیل میں جانا باعث اکتاہٹ ہوگا۔ عینی شاہدین پر بھی سو فیصد اعتماد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ مبالغہ کا دور ہے جو ہر جگہ موجود ہے۔ سرکار کی مجرمانہ غفلت کا بیان ہو یا ہوٹل والوں کی بے حسی اور کھلا لوٹ مار ہر ایک میں مبالغہ شامل ہے۔ اس سانحے کو لے کر سیاست کرنے والے بھی موجود ہیں۔
ایک صاحب نے لکھا ہےکہ دو ہزار روپے کا ناشتہ اور ایک ہزار کا ایک انڈا فروخت ہوا۔ پچاس ہزار کا کمرہ ایک رات کے لیے دیا گیا۔ اس قسم کی باتوں پر یقین نہیں آتا کہ کیا ایک انسان اتنا بھی گر سکتا ہے کہ مصیبت زدہ لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ لے۔ اگر یہ درست ہے تو ان ہوٹل اور ریستوران مالکان کے خلاف سرکار کو سخت ترین اقدام اٹھانا چاہیے جو اہل ملک کے لیے شدید بدنامی اور ندامت کا سبب بن رہے ہیں۔
اس افسوسناک حادثے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنائی گئی ہے جو تفتیش کرے گی۔ رپورٹ لکھے گی۔ مجرموں کی نشاندہی بھی کرے گی اور ممکن ہے دو چار کو سزائیں بھی ہوں گی۔ کیا اس سے مرحومین کو کوئی فائیدہ ہوگا اور لواحقین کا دکھ بھلایا جا سکے گا؟ جواب نہیں میں یے۔ ہماری ایک شرم انگیز روایت ہے کہ حادثہ واقع ہونے کے بعد کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں۔ رپورٹیں تیار کی جاتی ہیں۔ وقت اور پیسہ برباد کیا جاتا ہے اور نتیجہ ہمیشہ صفر آتا ہے۔ حادثے کے تدارک کی کسی کو فکر نہیں ہوتی۔ اس قسم کے حادثات کی روک تھام کے لیے بااختیار کمیٹیاں تشکیل دی جاتیں اور ان کی سفارشات پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جاتا تو نہ ایسے دلخراش حادثات پیش آتے اور نہ مری کے پجاریان دولت کی غیر انسانی حرکتوں کی شرمندگی اٹھانی پڑتی۔
سانحہ مری کے بعد ہمارے چترال کے کسی دوست نے جذبات سے بھر پور پوسٹ لکھا تھا کہ ملک کے سیاح چترال کی طرف آجائیں ہم اپنے گھر ان کے لیے خالی کریں گے۔ اس کے حق میں اور مخالفت میں بھی بہت ساری باتیں سننے کو ملیں۔ در حقیقت مہمان نوازی ہمارے پختونخوا صوبے کی عظیم روایت ہے۔ محض چترال یا گلگت بلتستان کے لوگ مہمان کے ساتھ اچھا برتاؤ کی شہرت نہیں رکھتے بلکہ مہمان نوازی پختون سماج کا طرہ امتیاز رہی ہے البتہ شیروں سے دور رہنے والے اپنی رویت برقرار رکھی ہوئی ہیں۔اچھے برے لوگ ہر سوسائٹی میں موجود ہوتے ہیں۔ لالچی دنیا پرست بھی ہر جگہہ ملتے ہیں اور خدا ترس انسان دوست لوگوں کی بھی کمی نہیں۔ مری میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے ان پھنسے ہوئے سیاحوں کو اپنے گھروں میں ٹھہرائے ہیں اور ان کی بہترین میزبانی کی ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ چند حرص و ہوا کے اندھے لوگوں کی وجہ سے پورا علاقہ بدنام ہوا۔
ہمارے ملک اور باہر کے جو سیاح فطرت کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے چترال اور گلگت بلتستان، ایبٹ آباد، سوات اور دیر، مری کے بنسبت سیاحت کے لیے زیادہ موزوں مقامات ہیں۔ اول تو یہاں عزت، جان اور مال کا تحفظ یقینی ہے۔ دوسرا کسی ہنگامی صورت حال میں ہمدرد رضاکار دستیاب ہیں۔ تیسرا یہ کہ یہاں کے کاروباری لوگ بھی اتنا لالچی نہیں ہیں کہ سیاح کو لوٹ لیں۔ چوتھا یہ کہ یہاں ایک سیاح کو قدرت کی تخلیقات کے مشاہدے کا موقع ملے گا۔ یہاں کے اونچے اونچے پہاڑ، صاف شفاف ندی نالے، آبشار اور چشمے، سرسبزو شاداب گاوں اور ان کے سادہ لوح باشندے ہر ایک اپنے اندر بلا کی کشش رکھتا ہے۔ گلگت اور چترال کے درمیاں درجنوں ٹریک موجود ہیں جو ٹریکنگ کرنے والوں کے لیے خوبصورت ترین قدرتی ماحول مہیا کرتی ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں پہنچنے کے لیے مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ سڑکیں کچی اور تنگ ہیں۔ آرام دہ ٹیکسیاں نہیں مل سکتیں۔ برفباری میں یہاں بھی پھنس جانے اور برف کے تودوں کی زد میں آنے کا خطرہ موجود ہے تاہم مہم جو جوانوں کے لیے ایسے خطرات کوئی معنی نہیں رکھتے۔ جہاں سیاح کی عزت، جان اور مال محفوظ ہو وہ جگہہ سیر کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہے۔



Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی