سیاسی مداخلت کی کہانی

یہ 2003 تھا۔ متحدہ مجلس عمل کا (سابق) صوبہ سرحد کا اقتدار سنبھالنے کے کچھ عرصہ بعد محکمہ تعلیم سے سیاسی مداخلت کا بوریا بستر اٹھوانے کا فیصلہ کیا گیا۔ بڑی بڑی کرسیوں پر براجمان بقراطوں نے صرف ایک "مجرب" نسخے کے ذریعے سب کچھ درست کرنے کا سہانا خواب دیکھا اور محکمہ تعلیم کو تدریسی اور انتظامی شعبوں میں تقسیم کرنے کا ارادہ کیا۔
 تجاویز تیار کی گئیں کہ اسسٹنٹ سب ڈویژنل آفیسر سے لےکر اگزیکٹیو ڈسٹرکٹ آفیسر اور اسسٹنٹ ڈئریکٹرز اور ڈپٹی ڈائریکٹرز کا انتخاب صوبائی پبلک کمیشن کے ذریعے کرایا جائے گا۔ تجاویز کو ختمی شکل دیدی گئی۔س سینئیرسٹافایسوسی ایشن نے سرکار کےاس فیغکےکی مخالفت کی۔ اس بابت سیکرٹری محکمہ تعلیم کے ساتھ چند ایک ناکام میٹنگیں ہویں۔ آخری میٹنگ سے سیکرٹری صاحب نے واک آؤٹ کرگیا کیونکہ ان کے پاس ہمارے اعتراضات کا معقول جواب نہیں تھا۔
حکومت کا موقف تھا کہ انتظامی کیڈر کو صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سلیکٹ کیا جائے اور ٹیچنگ سے الگ کیا جائے  تو سیاسی مداخلت بند ہو جائے گی۔ ہماری دلیل تھی کہ اس اقدام سے سیاسی مداخلت اور بڑ جائے گی۔ صوبائی سطح پر سکیکشن کا مطلب یہ ہوگا کہ زیادہ آفیسرز نسبتاً ترقی یافتہ اضلاع سے کمیشن کا امتحان پاس کریں گے اور ایسے ملازمین دور دراز اور مشکل اضلاع میں کام کرنے سے پہلو تہی کریں اور اپنی پوسٹنگ بہتر جگہوں میں کرانے کے لیے سیاسی ذریعہ استعمال کریں گے نیز محدود محکمے پر محدود تعداد کے انتظامی ملازمین کی اجارہ داری قائم ہوگی جو نقصاندہ ہوگی جبکہ پرنسپلوں اور ہیڈماسٹروں کی بڑی تعداد میں سے کسی بھی موزوں آدمی کی پوسٹنگ انتظامی عہدے  ہر ہوسکتی ہے تو گورنمنٹ کے لیے انتخاب کا آپشن کھلا رہیگا ۔ دوسری دلیل یہ تھی کہ محکمہ تعلیم کے اندر اسی فیصد 17 اور اوپر سکیل کے ملازمین پہلے ہی کمیشن کا امتحان پاس کرکے آئے ہیں جس میں انتظامی عہدے بھی شامل تھے۔ یعنی ایک منتخب آفیسر ہیڈماسٹر یا ڈسٹرکٹ آفیسر یا اسسٹنٹ ڈائریکٹر مقرر ہوسکتا تھا۔ انہیں پھر سے امتحان سے گزارنا نامعقول فیصلہ ہے۔
ہماری آخری میٹنگ  چیف سیکرٹری کےساتھ ہوئی۔ انہوں نے ہمارا موقف سنا اور مان بھی لیا۔ محکمے کے اندر ٹیچنگ اور ایڈمنسٹریٹیو کیڈرز کو الگ کرنے کا فیصلہ روک دیاگیا۔ پھر اے این پی نے اس غیر ضروری مشق کا  "کارنامہ" انجام دیا۔ پتہ نہیں سینئیر سٹاف ایسوسی ایشن  نےپھر سے مخالفت کیوں نہیں کی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس قسم کے فیصلوں سے ان حکومتوں کے کس قسم کے مفادات وابستہ تھے؟ کیونکہ تدریسی اور انتظامی کیڈرز وجود میں آنے کے بعد محکمہ تعلیم کے اندر کسی قسم کی کوئی بہتری کہیں نظر نہیں آئی۔ محکمے کے اندر سیاسی مداخلت جوں کی توں جاری رہی۔
آج کلاس فور ملازمین کی تقرری کو لے کر ہمارے نمائیندے جو پریس کانفرنس کر رہے ہیں یہ ان کے اپنے ہی فیصلے کی نفی ہے ۔ ہم لوگ اس وقت بھی یہی کہہ رہے تھے کہ محکمہ تعلیم کے اندر بیروکریسی پیدا نہ کریں۔اگر سیاسی مداخلت ختم کرنے میں مخلص  ہو تو سروس رولز پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ سیاسی مداخلت خود بخود بند ہو جائے گی۔
ہماری کمزور یادداشت کے مطابق پاکستان پپلز پارٹی کی دوسری حکومت کے دوران سیاست ریاستی اداروں کے اندر گھس گئی۔ اس کے بعد ہر آنے والی حکومت نے اپنے چمچوں اور چیلوں کو کلیدی عہدوں پر بٹھانا شروع کیا اور ان سے ہر ناجائز کام کرانے کی ریت ڈالی۔ ایسے آفیسر حکومت وقت کے کٹ پتلی ہوتے تھے اور جو ایم پی ایز اور ایم این ایز کے ہاتھوں میں ناچتے رہے۔
 پہلے محکمے اور متعلقہ اہلکار اپنےفیصلوں اور اختیارات کے استعمال  میں آزاد تھے اور اس وقت تک سرکاری محکموں کی کارکردگی بہتر تھی۔ جب سے ہمارے سیاسی نمائیندے ان میں دخل دینا شروع کیا ان کی کارکردگی گرتی گئی اور ہمارے قومی ادارے تباہی کے کنارے جا پہنچے۔ آج ہمارے قومی اداروں کی جو بری حالت ہے ہم سب کے سامنے ہے اور  ہمارے قومی نمائیندوں کی سوچ کلاس فور ملازمین کی بھرتی اور  تبادلوں میں اٹک کر رہ گئی ہے۔ صد حیف! ۔

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ