قائد کے مزار پر

 جب بھی کراچی جانے کا اتفاق ہوا ہے بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمت اللہ علیہ کے مزار پر حاضری دینا میرے  لیے لازمی رہا ہے۔ اس مرتبہ پورا خاندان کے ساتھ حاضر ہوا ۔ محترم قاری محمد شمس الدین چترالی نے ہمیں بڑی عزت دی اور اپنی پیاری اور پر سوز آواز میں فاتحہ خوانی بھی کی۔ مزار کی تعمیر سے متعلق ہمیں تفصیلی معلومات بہم پہنچائیں۔ مجھے بے حد فخر محسوس ہوا کہ چترال جیسے دور افتادہ ضلع سے تعلق رکھنے والے نوجوان قاری کو یہ اعزاز ملا ہے کہ وہ بابائے قوم کے مزار پر فاتحہ خوانی کے فرائض انجام دے رہا ہے۔ قاری  شمس اپنی شرافت اور محبت کے لحاظ سے انتہائی قابل احترام شخصیت کے مالک ہیں اور چترالی تہذیب کے سچے نمائیندے ہیں۔ قاری صاحب نے قائد اعظم کی تصویر کا بیج ہمارے سینے پر سجا کر ہماری قدر افزائی  فرمائی اور ایک کتاب " قائد اعظم محمد علی جناح ادیبوں کی نظر میں،  مرتبہ شیما مجید" مجھے تحفے میں پیش کی۔

 قائد کا مزار اہل پاکستان کے لیے انتہائی قابل احترام مقام  ہے اور ہر پاکستانی کو معلوم ہے کہ بابائے قوم کراچی میں آسودہ خاک ہیں تاہم بہتوں کو اس کی تاریخ تعمیر کا علم حاصل نہیں ہے۔ اس لیے یہاں اس کا مختصر خاکہ قارئین کی دلچسپی  کے لیے پیش کرتا ہوں۔ قائد اعظم کی رحلت پر جائے مدفن کے لیے مادر ملت فاطمہ جناح سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے کراچی کے میئر سید ہاشم رضا کو ہدایت دی۔ اس نے موجودہ جگہے کی نشان دہی کی جو اس وقت کوئی دو لاکھ مہاجرین کی عارضی رہائشگاہ تھی۔ سید ہاشم رضا نے جب مہاجرین سے اپیل کی کہ قائد کی آخری آرام گاہ کے لیے یہ جگہہ منتخب ہو گئی ہے تو انہوں نے اپنے قائد کے لیے جگہہ خالی کرنے پر تیار ہوگئے ۔ صرف ایک شرط رکھی کہ ان کو جہاں بسایا جائے اس کا نام قائد اعظم سے منسوب کیا جائے۔  آج کا قائد آباد وہی جگہہ ہے جہاں اس وقت مہاجرین کو بسایا گیا تھا۔12 ستمبر 1948 کے دن قائد کو اس مقام پر سپرد خاک کر دیا گیا۔ 1960 تک مزار  کے اوپر ایک عام سی کینوپی تھی۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے قائد کے مزار کی تعمیر بابائے قوم کی شان کے مطابق کرانے کا فیصل کیا۔ ماہرین تعمیرات سے ڈیزائن مانگے گئے تو ترک آرکیٹکٹ اے واصفی اگلی، برطانوی وائٹ فیلڈ اور پاکستانی آرکٹیکٹ نواب شین یار جنگ نے نقشے پیش کیے جنہیں محترمہ فاطمہ جناح نے مسترد کیا۔ پھر فاطمہ جناح کی ہدایت پر قائد کے دوست آرکٹیکٹ یحییٰ مرچنٹ نے موجودہ ڈیزائن تیار کیا۔ مئی 1960 کو مزار پر کام کا آغاز ہوا۔ 12 جولائی 1960 کو صدر ایوب خان اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ مئی 1966 کو ڈھانچہ تیار ہوا جب کہ 1971 میں اس کی تعمیر کا باقی کام مکمل ہوا۔  اس وقت کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر یحییٰ خان نے اس کا افتتاح کیا۔چینی صدر چو این لائی نے اس کے لیے فانوس کا تحفہ کیا جس کا وزن تین ٹن بتایا جاتا ہے۔  نزار کی زمین کا کل رقبہ ایک سو سولہ ایکڑ ہے۔ نزار پر اس وقت 14.8 نیلم روپے خرچ ہوئے تھے۔ مزار قائد کے پانج بڑے دروازے ہیں۔ جناح روڈ پر کھلنے والے دروازے کا نام باب جناح ہے۔ شاہراہ قائدین کی طرف کا دروازہ باب قائدین کہلاتا ہے ۔ مشرقی دروازہ باب تنظیم کے نام سے موسوم ہے۔ شمالی دروازہ باب امام کہلاتا ہے جب کہ قدیم نمائش کی طرف والا دروازہ باب اتحاد کے نام سے مشہور ہے۔

قائد کے مزار کی مشرقی طرف ایک کمرے میں لیاقت علی خان، عبدالرب نشتر، محترمہ فاطمہ جناح ، نور الامین اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کی قبریں ہیں۔ ایک بڑے ہال میں قائد اعظم محمد علی جناح کے استعمال کے سارے سامان رکھے گئے ہیں جو دیوان نوادرات قائد کہلاتا ہے۔

آج سے کوئی چھ سال پہلے قائد کے مزار کی حالت اچھی نہیں تھی۔ اس مرتبہ دیکھا تو اس کی اچھی خاصی دیکھ بال نظر آئی۔ صفائی کی حالت بھی اطمینان بخش ہے۔

نوٹ : تصاویر اور معلومات کے لیے قاری محمد شمس الدین صاحب کا شکریہ۔

Comments

Popular posts from this blog

انتقال غم آگین

دروغ گو را حافظہ نہ باشد

کنج عافیت