تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال بونی چترال  کی مخدوش حالت کا ذمے دار کون؟                                           
                                                                                       
[AH1] پیچھلے سال نومبر کی کسی تاریخ کو بونی کے سرکاری ہسپتال جانے کا اتفاق ہواتھا۔ ہسپتال کی حالت زار دیکھ کر رونا آیا تھا اور اس کی حالت کا نقشہ میں نے آن لائین اخبار چترال ٹوڈے کے صفحوں کی وساطت سے دکھایا تھا

 آج پورا ایک سال بعد پھر اس "اجڑی بستی" کو پوری طرح دیکھا کیونکہ یہ ہمارا واحد ہسپتال ہے جہاں تھوڑی بہت طبی امداد سب ڈویژن مستوج کےغریب مریضوں کو مفت ملتی ہے۔ اس ہسپتال کو دو تین سال پہلے محکمہ صحت کے پی کے  نے کیٹیگری سی ہسپتال کا درجہ دیا تھا اور نئی عمارت کی تعمیر کے لیے فنڈ مختص کیا گیا تھا۔ بپچھلے سال یہاں کا جو نقشہ سامنے تھا  ایک سال گزرنے کے باجود اس میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا ہے ۔ اس کی چاردیواری وہی  ٹوٹی پھوٹی، رات کو ہسپتال کے اندر آوارہ کتوں کا وہی راج، وہی گندگی، ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کی رہائش گاہیں وہی خستہ حال اور خطرناک حالت میں، نئی اضافی عمارتوں کی بنیادوں کے لیے  پچھلے سال کے آخر میں جو کھودائی کی گئی تھی اس میں بنیادیں اس وقت ڈالی جارہی ہیں۔ اس کھودائی کے نتیجے میں مریضوں کے وارڈوں  کی مشرقی طرف  مٹی کا ملبہ ڈال کر جو پہاڑی سی بنائی گئی تھی اور جس نے مریضوں کے لیے جو غیر صحت مند ماحول پیدا کیا تھا اور ڈاکٹرز کی رہائشگاہوں کی چاردیواری کے ساتھ اس طرح مٹی اور پتھروں کا جو ڈھیر لگا کر انہیں انتہائی غیر محفوظ اور بے پردہ بنا دیا گیا تھا انہیں آج بھی اسی حالت میں پایا حالانکہ اس بابت لیڈی ڈاکٹر نے بھی اپنے ایم ایس، سابقہ ایم پی اے اور دوسرے ذمے داروں صاحبان با اختیار  کو بار بار متوجہ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ قصور کس کا ہے؟ ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر کا یا ایم ایس کا یا سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ کا ہے؟ کیا نئی  عمارت کی تعمیر کے نام پر مریضوں اور میڈیکل عملہ کی صحت، ذہنی سکون اور حفاظت کو تباہ کرنے کا اختیار بھی ٹھیکے داروں اور سی اینڈ ڈبلیو کے عملداران  کو دیا گیا ہے؟



پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو ہم اس بات کی امید پر خوش تھے کہ باقی کام سے زیادہ ترجیح صحت کو دی جائے گی خاص کرکے زچہ بچہ کی صحت کو۔۔ یہ ہر عقلمند انسان جانتا ہے کہ انسانی صحت کتنی ضروری ہے۔ صحت ہو تو تعلیم، کسب معاش اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں  ترقی ممکن ہے۔ صحت نہیں تو کچھ بھی حاصل نیں کیا جاسکتا۔ محکمہ صحت کے پی نے علاقے کی دور افتادگی اور علاقے میں مناسب طبی سہولیات نہ ہونے کی بنا پر اس ہستال کو اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہوگا نہ کہ اس آ پگریڈیشن کی تعمیری سرگرمی پر موجودہ طبی سہولتوں  اور




 مریضوں کے مفادات کو قربان کرنے کے لیے۔ گزشتہ بارہ مہینوں سے وارڈوں اور رہائشگاہوں کے ساتھ  جمع کی ہوئی مٹی مریضوں اور ڈاکٹروں کے پھیپھڑوں میں جاتی رہی ہوگی۔ اس وقت تعمیری میٹیرئیل کی سپلائی ہسپتال کے اندر سے ہو رہی ہے جس سے جو گردو غبار اٹھ کر فضا کو زہر آلود بنا رہا ہے اسے لفظوں میں بیان نہیں کر پا رہا ہوں۔ کیا محکمہ تعمیرات کے اہلکاروں کے نزدیک تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال بونی کے اندر رہنے والوں کی جانوں کی کوئی قیمت نہیں ہے؟ کیا محکمہ صحت اتنا گیا گزرا ادارہ ہے جو اپنے عملے اور مریضوں کی صحت کی حفاظت نہیں کرسکتا؟ ٹھیکے دار تو پیسے کے غلام خود غرض لوگ ہوتے ہیں۔ انہیں کسی نہ کسی طرح پیسہ کمانا ہوتا ہے۔ انہیں نہ مریض کی پرواہ ہے اور نہ ڈاکٹروں کی۔ اس ملک کا بیڑہ عرق کرنے میں ہمارے ملک کے ٹھیکے داروں، ٹھیکہ کرنے والی کمپنیوں اور سول انجینئیروں کا بڑا رول رہا ہے ۔ گنتی کے چند دیانتدار حضرات سے معذرت کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار میرا فرض بنتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنے سابقہ کالم میں سول/ سیشن جج بونی سے درخواست کی تھی کہ وہ مریضوں کی صحت کے ساتھ اس کھلواڑ اور لیڈی ڈاکٹر کی رہائیشگاہ کی غیر محفوظ حالت اور بے پردگی کا از خود نوٹس لیں۔ شاید میری گزارش ان کی نظر سے نہیں گزری ہوگی۔  اس وقت پھر سے گزارش کروں گا کہ سول جج بونی، آے سی بونی اور ڈی سی چترال اوپر دی گئی تصویروں کو بغور دیکھیں اور مریضوں اور ڈاکٹروں کی سکیوریٹی اور صحت کے ساتھ کھیلنے والوں کے خلاف قانون کوحرکت میں لائیں تاکہ مریضوں اور ہسپتال کے عملہ کی صحت، پردہ اور جان محفوظ رہ سکیں۔
  
[AH2]      








Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی