قلمقو ژوئے

وادی یارخون کے قدیم ترین گاونوں میں ایک گاؤں بانگ بھی ہے۔ آج تک یارخون میں قدیم ابادی کی نشاندھی کسی مورخ یا ماہر آثار قدیمہ نے  نہیں کی ہے تاہم قدیم درختوں اور قبروں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ گاوں بانگ  یہاں کے قدیم ترین گاونوں میں سے ایک
ہوسکتا ہے۔ اس کے دو حصے بانگ پائین اور بانگ بالا ہیں۔ ان دونوں حصوں کا فقط تھوڑا سا حصہ قدیم سے آباد تھا۔ بانگ پائین کا ڈام اور اردگرد کا حصہ اور بانگ بالا کی سب سے نیچلی نہر کے نیچے کا حصہ جو موجودہ سڑک سے دریا کی طرف کا حصہ ہے یعنی سوروگاز سے ملحق سیدانن دہ ، غورغوڑونگ، بیگاندور اور لوانڈوک۔ بانگ بالا کی دوسری نہر قلمقو نیزیرو ژوئے" یعنی قلماق کی بنائی ہوئی نہر کے نام سے مشہور ہے۔ قلماق کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ انتہائی وحشی اور درندہ صفت قوم تھی جو شمال سے آکر اس وادی میں لوٹ مار اور قتل وغارت کا بازار گرم  کیا کرتی تھی۔ یہاں لوگوں کا جینا حرام تھا۔ اس لیے لوگ ان کی آمد کا سن کر پہاڑوں میں غاروں کے اندر چھپ جایا کرتے تھے۔اس نہر کی تعمیر کی کہانی کچھ یوں شروع ہوتی ہے۔ 
زوندران یارخون کے ایک پڑ پڑ دادے کا نام کافر پشاڑ تھا جو کار پشاڑ کا بیٹا تھا۔ اپنی جسمانی  طاقت اور علاقے میں چڑیلوں کو مارنے کی شہرت رکھتا تھا۔ اس کا  گھر اورکن میراگرام میں تھا۔ گاوں بانگ بھی اس کی ملکیت تھا۔ بانگ بالا کے  ڈھلان کے اوپر  اس کا چھوٹا سا مکان تھا جو "ٹیکو کوٹو" کہلاتا تھا اور اسی نام سے یہ جگہ آج تک ٹیکو ٹوٹو کہلاتا رہا ہے۔ کوئی ایک دھائی پہلے یہاں کے باشندوں نے اس کا نام مومن آباد رکھدیا ہے کیونکہ کوٹو کھوار میں کٹیا جو کہتے ہیں۔ اس کوٹو میں کافر پشاڑ  اپنی بیوی کے ساتھ مال مویشیوں کی دیکھبال کیا کرتا تھا۔ ایک دن وہ شکار کے لیے بانگ گول چلا گیا۔ پہاڑی بکرے۔ (آئی بیکس) کےشکار کے بعد وہ ایک غار یعنی څریرو کین میں رات کو قیام کیا اور اپنے لیے گوشت کے سیخ کباب جسے کھوار میں رندیژو کہتے ہیں بنانے میں مصروف ہوگیا۔ اسی دوران غار کے منہ پر انہیں ان کی بیوی نظر آئی اور باہر سے آواز دیتے ہوئے کہا، " آپ یہاں کباب پکانے میں لگے ہو وہاں قلماق لشکر نے گھر اور گاؤں پر قبضہ کر بیٹھا ہے" ۔ کافر پشاڑ  فوری طور پر سوچا کہ وہ عورت اس کی بیوی نہیں ہوسکتی۔ اکیلی عورت اتنی  رات گئے پہاڑوں میں سات اٹھ میل دور کیسے آسکتی تھی؟ اس نے اس عورت کے پاوں کی طرف نظر دوڑائی تو دیکھا اس کے پیر الٹے تھے۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ چڑیل ہے۔ اسی بہانے اس کا خون چوسنا چاہتی ہے کیونکہ کافر پشاڑ چڑیلوں کا بڑا دشمن تھا۔ اس نے اس پہلے کئی چڑیلوں کو مار ڈالا تھا۔
کافر پشاڑ نے اس چڑیل سے کہا، " کوئی بات نہیں ۔ تم یہاں آگئی ہو تو یہ کباب کھاکر ہی جائیں گے۔ تم اندر آجاؤ" جب وہ چڑیل اندر داخل ہوئی تو کافر پشاڑ نے وہ گرم سیخ و کباب اس کے سر پہ دے مارا اور اسے ہلاک کردیا ۔ اس کے بعد وہ گھر کی طرف چل پڑا کیونکہ اسے شک پڑا گیاتھا کہ چڑیل کی بات غلط نہیں ہوسکتی۔ جب گھر پہنچا تو دیکھا کہ چڑیل کی بات سچ تھی۔ لشکرِ قلماق  اس کے گھرکو گھیرے میں لیے محو خواب تھا۔ اس نے ایک ایک کرکے انہیں ذبح کرنا شروع کیا یہاں تک خون کی ندی بن کر نیچے بہنے لگی۔ جو لوگ ذبح ہونے سے پہلے جاگ گئے تھے وہ اپنی تلواروں کو نیاموں میں پھنسی ہوئی پائی اور خدمت کے عوض جان کی امان مانگی۔ در اصل کافر پشاڑہکی بیوی بڑی سیانی تھی۔ اس نے حملہ آور قلماق کی بڑی خاطر توضع کی اور انہیں اتنا کھلایا کہ وہ  جلد ہی محو خواب ہوگئے۔ جب وہ گیرے نیند سوگئے تو اس عورت نےنان کی تلواروں کی نیاموں میں لسی کے پانی سے تیار شدہ گھاڑا سیال ڈالدیا۔ یہ چیز کھٹی اور لیسدار ہوتی ہے۔ چترال میں قدیم زمانےسے بنائی جاتی رہی ہے جو طعام میں بطور کٹھا استعمال ہوتی ہے اور جس کی طبی خاصیت ٹھنڈی ہوتی ہے۔ کھوار زبان میں اسے شوت کہتے ہیں۔ اس چیز نے قلمقاق لشکر کی تلواروں کوناکارہ  بناکے رکھدیا۔ وہ ہتھیار ڈالنے پرمجبور ہوگئے۔ کافر پشاڑ نے ایک شرط پر ان کی جان بخشی کی درخواست قبول کی کہ وہ ٹیکو کوٹو کے لیے بانگ گول سے نہر نکال لیں۔ انہیں نہر کی تعمیر پر لگادیا۔ جب انہوں نے یہ نہر بنا ڈالی تب انہیں جانے دیا۔ تب سے اس نہر کا نام "قلمقو نیرو ژوئے" پڑگیا۔ کہتے ہیں کہ بانگ سورو گاز سے  گھاس مٹی اور جڑوں سمیت اکھاڑ کر اس نہر پر لگادی گئی جس سے یہاں بہت بڑا گڑھا پڑ گیا جو ہنوز قائم ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی