خاندان سرنگ کی بزرگ ترین شخصیت

قرآن پاک کی روشنی میں ہم نسب افراد کا ایک دوسرے کو جاننا پہچاننا معروف عمل ہے البتہ تفخر حرام ہے کیونکہ اللہ کے نزدیک وہ شخص وقعت رکھتا ہے جو اس سے ڈرتا ہے۔ جب رشتوں اور فاصلوں میں قربت ہو تو ایک دوسرے کا حال احوال پوچھنا فرض بنتا ہے۔ میں ذاتی طور پر کوشش کرتا رہا ہوں کہ اپنے خاندان کے بڑوں کے بارے میں باخبر رہوں۔ بعض اوقات بحالت مجبوری ہم سے کوتاہی ہوتی رہتی ہے۔
اپنے سے عمر میں بڑے ہر فرد کا احترام انسانیت کا طرہ امتیاز ہے۔ ایک شخص کی سیرت اس کے احترام انسانیت کے پیمانے کے ذریعے ناپی جاسکتی ہے۔
معاشرے کے بزرگ افراد کے ساتھ نشست میری پسندیدہ اعمال میں شامل ہے البتہ حالات و واقعات ایسے پیش آتے ہیں جو اس شوق کی تکمیل میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ آج میں اپنے خاندان کی بزرگ ترین شخصیت کا تعارف کرانا چاہتا ہوں۔

میرے علم کے مطابق زوندران چترال کی سرنگ شاخ میں قاسمے خاندان کے میکی نور نواز خان موضع میراگرام نمبر 1 واحد بزرگ شخصیت اس وقت حیات ہیں جو ہمارا چچا لگتے ہیں۔ سرنگ شاخ کے قاسمے بریپ یارخون کے قاسمان دور، چونج اور دودوشئے مستوج ،میراگرام نمبر 1، قاسمان دور آوی اور کروئ گولوغ آوی میں رہتے ہیں۔ ان میں نور نجف اور تئیغون جمعدار بریپ، صاحب نگین چارویلو، ان کے بھائی شاہ نگین، ان کے فرزندان جلال الدین صوبیدار، اقبال نگین، میر نواز اور اس کا بیٹا ماسٹر وزیراعظم خان میراگرام اور پیر نواز آوی معروف شخصیات گزرے ہیں۔ 
نور نواز میکی پانج پشتوں کی دوری پر میرے والد مرحوم لغل خان لال کے چچازاد بھائی ہیں۔ اس وقت وہ اپنی عمر کے ساڑھے چار دھایاں بیتا چکے ہیں۔ ہوش و جوش کے لحاظ سے مکمل طور پر صحت مند ہیں۔  اپنے زمانے کے معیار کے مطابق تعلیم یافتہ، معاملات اور حالات زمانہ سے پوری واقفیت رکھنے والے، جہاندیدہ بزرگ ہیں البتہ اپنی اولاد کے معاملے میں تھوڑا ڈکٹیٹر لگتے ہیں جو ہماری خاندانی روایت کا حصہ رہا ہے اور جسے نظر انداز کیا جا سکتا  ہے۔  مہمان نواز اور یار باش شخصیت ہیں۔ غیرت مند آدمی ہیں۔
نور نواز میکی  چترال کے اولین اساتذہ میں معروف استاد، وزیراعظم خان مرحوم کے چھوٹے بھائی، اسرار احمد اے سی (ر) اور بشیر احمد سنئیر ٹیچر کے عمل خورد، رب نواز خان اے اے سی مولکھو، عطاء الرحمٰن کمیسٹ اینڈ ڈرگیسٹ بونی،  ضلع نگر کے ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسر جاوید احمد اور اظہر الدین ایم بی اے کے والد ماجد ہیں۔ ان کو چترال کے مشہور ستھار نواز شاہ گلی زار المعروف شالدینچی اور ہم عصروں کی محفلوں میں بیٹھنے کا شرف حاصل رہا  ہے۔ جوانی میں موسیقی، شکار اور پولو کے دلدادہ رہے ہیں۔ آزاد طبع، خوش مزاج اور پیار کرنے والے شاہانہ طبیعت کے مالک بزرگ ہیں۔ مقامی سیاست میں بھی متحرک کردار کے مالک رہے ہیں۔ ماضی میں دو مرتبہ تحصیل کونسل مستوج کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز کا گہرا علم رکھتے ہیں۔ علاقے کی نسلی تاریخ سے کافی حد تک واقف ہیں۔
گلگت میں مجھے پتہ چلا کہ میکی اپنے فرزند جاوید احمد کے پاس ہنزہ  آئے ہوئے ہیں۔ مجھے ان سے ملنے کا پروگرام تھا۔ پھر ایک دن  برخوردارم جاوید احمد انہیں آنکھوں کا معائنہ کروانے دخترم  ڈاکٹر زبیدہ سرنگ اسیر کے پاس گلگت لے کر آئے اور کمال محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں ملنے ڈاکٹر زبیدہ کی رہائش گاہ تشریف لائے۔ مجھے پہلے بھی نور نواز میکی کے ساتھ بیٹھنے کا شوق رہا ہے۔ ان کی ساتھ درجنوں نشستیں ہوئی ہیں۔  ان کی گفتگو مٹھاس ہوتی ہے اور ہمیشہ دلچسپ ہوتی ہے۔ جب وہ مجھے گلگت میں ملے تو میں نے انہیں اپنے پاس روکنا چاہا لیکن میکی اور جاوید نے مختلف بہانوں سے میری یہ خواہش پوری ہونے نہیں دی۔ مجھے کریم آباد ہنزہ آنے کی دعوت دی گئی جسے میں نے بصد شکریہ قبول کیا۔ 
24 دسمبر کو جاوید بھائی نے گاڑی بھیجدی اور مجھے علی آباد، ہنزہ پہنچا دیا جہاں جاوید رہائش پذیر ہے۔ نگر کی طرف سڑک پر برف کی دبیز تہہ بچھی تھی۔ پہاڑ سارے سفید چادریں اوڑھ رکھے تھے۔ اس کے باوجود سردی کی شدت محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ جاوید احمد کی رہائشگاہ میں ان کے والد صاحب کو ملنے کے علاؤہ ان کے بال بچوں سے ملنا بھی ضروری تھا کیونکہ پچھلی دفعہ مجھے ان سے ملنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ جاوید کی اہلیہ اعلے تعلیم یافتہ خاتون ہیں اور ہنزہ کے مقامی اسکول میں ٹرینڈ گریجویٹ ٹیچر کی آسامی پر کام کر رہی ہیں۔ تین پھول سے بچے ہیں۔ ان کے نام یاد کرتے کرتے میں میکی نور نواز کی کئی اہم معلومات بھلا دیں کیونکہ ان کے نام عام مروجہ ناموں سے ہٹ کر ہیں۔ بڑا بیٹا حسنیل علی جاوید، چوتھی گریڈ کا طالب العلم، تیز طرار اور مہذب بچہ ہے۔ فوجی افسری سے رغبت رکھتا ہے۔ دوسرے نمبر پر ایلیافی جاوید المعروف چیف سکریٹری  ہے۔ یہ بھی ذہین اور شائستہ بچہ ہے اور ابھی سے چیف بن بیٹھا ہے۔ گریڈ تھری میں پڑھتا ہے جب کہ سب سے چھوٹا سعدان علی جاوید آٹھ نو مہینے کا ہوگا۔ بڑا پیارا، ہنستا مسکراتا بچہ ہے۔ ان کا دادا جب گنگناتے ہیں تو سعدان بیٹھے بیٹھے ناچنے لگتا ہے۔  اللہ پاک ان پیارے بچوں کو سلامت اور آباد رکھےاور ان کی معصومانہ خواہشات پوری کرے۔
میکی نور نواز خان کے ساتھ دو راتیں اور ایک دن مختلف موضوعات پر دلچسپ گفتگو میں گزر گئے۔ ان سے بہت ساری معلومات ملیں۔ کچھ موبائل فون پر ریکارڈ ہوئے اور کچھ اپنے ضعیف حافظہ کے سپرد کرنے کی کوشش کی۔ میکی کی خواہش تھی کہ میں مزید دو چار دن ان کے ساتھ گزاروں لیکن یہ میرے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس لیے ان سے بڑی مشکل سے اجازت لے کر گلگت واپس ہوا۔ اس مصروف اور نفسا نفسی کے دور کے بزرگ لوگوں کو ہم عمر یا ہم طبیعت لوگ میسر نہیں ہیں اس لیے یہ تنگی محفل کا شکار رہتے ہیں۔
  میکی صاحب  کو ہنزہ کے لوگوں سے دو شکایتیں ہیں کہ یہ لوگ جب ملتے ہیں تو نہ سلام کرتے ہیں اور نہ حال احوال پوچھتے ہیں۔  دوسری گلہ مندی ان کی یہ ہے کہ یہ لوگ ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے نہیں ہیں۔ ان کی پہلی شکایت کی میں نے بھی تصدیق کی۔ جہاں تک ایک دوسرے کے گھر آنے جانے کا سوال ہے تو اسے مصروفیت کی وجہ قرار دے سکتے ہیں کیونکہ یہ لوگ ہم اہل چترال جیسے بیکار بیٹھ کر گپیں ہانکنے والے نہیں ہیں۔ ہمہ وقت مصروف کار رہنے والے لوگ ہیں۔ ہمارے چترال اور غیرز میں راستے میں ملنے والا شخص ضرور سلام ادا کرتا ہے۔ واقفیت ہو تو حال احوال بھی پوچھتا ہے نیز گاؤں کے لوگ ایک دوسرے کے گھر آ جایا کرتے ہیں خاص کرکے گاؤں کے معمر لوگوں کی مزاج پرسی اور چند ساعتیں ان کے ساتھ گزارنے کے لیے وقت نکالتے ہیں جو گاؤں کے بزرگوں کا حق ہے۔
نور نواز میکی کو اپنے گاوں میرا گرام سے بڑھ کر  دنیا کا کوئی گوشہ بھی پسند نہیں ہے۔ اس لیے اپنے بیٹوں اور بھتیجوں کے پاس بونی، ہنزہ، پشاور وغیرہ میں رہنا گویا ان کے لیے قید خانے کی زندگی جیسا ہے۔ کہتے ہیں کہ سردیوں میں بھی میراگرام اچھا ہے حالانکہ یہ گاؤں چترال کے یخ بستہ گاؤنوں میں سے ایک ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ موسم بہار سے لے کر خزان کے اختتام تک اس جیسی جگہہ اور کہیں نہیں مل سکتی۔ اس کا خوشگوار آب و ہوا، صاف ستھرا ٹھنڈا پانی اور رنگ رنگ کے میوے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی بڑی نعمتیں ہیں۔بہر حال میکی نور نواز کو ان کا آبائی گاؤں میراگرام تین چار فٹ موٹی برف میں روپوش حالت میں بھی پیارا  ہے۔ میراگرام ہنزہ کے مقابلے میں انہیں گرم بھی لگتا ہے حالانکہ یہ حقیقت سے کوسوں دور دعویٰ ہے۔ یہ گرمی ان کی اپنی جائے پیدائش سے محبت کی حدت ہے۔  گلگت آمد سے لے کر آج تک(32 دن) کے ایام، گھنٹے بلکہ منٹ بھی یاد ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کا یہاں سالہا سال گزر گئے ہیں اور گھر پہنچنے کے لیے بے تاب ہے۔ میں نے انہیں اس بات پر قائل کرنے کوششیں کیں کہ" انہیں اپنے اس بیٹے، بہو اور پوتوں کو بھی وقت دینا چاہیے تاکہ یہ آپ کی خدمت کرکے خود کو تسکین قلب پہنچا سکیں اور دونوں جہانوں میں سرخرو ہوجائیں۔ یہ اپنی ملازمت کی مجبوری کے باعث آپ کے پاس گاؤں میں ٹھہر آپ کی خدمت بجا نہیں لا سکتے"۔میری دلیلیں نقش بر آب ہوگئیں۔ اس لیے جاوید بھائی کو مشورہ دیا ہے کہ میکی جو چاہتے ہیں وہی کریں۔اس میں ہم سب کی بھلائی ہے۔ میں اسی کالم میں برخوردارم اظہر الدین اور ان کی اہلیہ جو رشتے میں میری پوتی لگتی ہے کو تاکید کرنا چاہوں گا کہ میکی محترم کا خاص خیال رکھیں کیونکہ اس عمر میں ہر انسان کا مزاج یکسر بدل جاتا ہے اور بچوں کے لیے والدین کو خوش رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ بہت کڑا امتحان ہے۔ مجھے امید ہے کہ دونوں بچے اپنے خاندانی امور وراثت بخوبی نبھانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔اللہ پاک اس عظیم باپ کا سایہ تم پر اور  ہم پر قائم رکھے۔ ہمیں ان کے تجربات اور دعاؤں کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔ 
 ہنزہ کا دو روزہ دورہ ثالث میکی صاحب سے اجازت لینے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ جاوید بھائی خود مجھے گلگت پہنچا گئے۔ انتہائی تابعدار اور قدردان برخوردار ہیں۔ اللہ ان کی زندگی کو خوش و خرم رکھے، آمین یارب العالمین!

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی