گلگت ‏ضیافتیں

گلگت ضیافتیں

ہمارے ایک برخوردار ہیں۔ پیشہ کے لحاظ سے پروفیسر اور لکھاری بھی ہے۔ جب بھی مجھے کسی پر تکلف ضیافت کھانے کا موقع ملتا ہے تو وہ مجھے یاد آتا ہے۔ خواہش ہوتی ہے کہ اگر ساتھ ہوتا تو کتنا مزہ لے لے کر کھاتا اور اس کے بعد نوک قلم سے وہ تعریف و توصیف کا نثری سماں باندھ لیتا کہ کھلانے والے کو مزید کھلانے کی آرزو ہوتی۔ کاش جوانی دیوانی کے دنوں اگر ہم ضیافت نامہ لکھنے کی طرح ڈالتے تو آج تک کئی ضخیم کتابیں جنم لیتیں۔ اب کی حالت یہ ہے کہ کسی دعوت میں کھانے کی نوع بہ نوع خوراک دیکھ کر اشتہا تو بڑھ جاتی ہے لیکن پھر ضعیف العمر ہاضمے کی فکر دامن گیر ہو کر اشتہا کو بھاگا دیتی ہے۔ جب تک آپ دسترخوان پر چنے ہر طعام کے ساتھ انصاف نہیں کریں گے تو ان کے بارے میں کیا خاک لکھ پائیں گے۔
چونکہ کھانا کھانے کے بعد شکرانہ نعمت ادا کرنا لازم ہے۔ ہم اللہ کا شکر اور میزبان کے لیے برکت کی دعاء کرنا کبھی نہیں بھولتے البتہ لکھنے میں کاہلی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ ہزاروں دوست احباب، رشتے ناتے، اپنے بیگانے  زندگی کے اس لمبے سفر کے دوران ہمیں کھلاتے پلاتے رہے ہیں۔ ان میں بہت کم یاد رہتے ہیں۔ اگر ہم ان کی مہمان نوازیوں کو ضبط تحریر میں لاتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ ایک طرف شکر گزاری کا ثبوت زندہ رہتا تو دوسری طرف اپنی ثقافت کی تاریخ بھی محفوظ ہوتی جاتی۔ 
میرے برخوردار صاحب کریم خان ساتھ ہوتے ہیں تو تھوڑا مزہ آتا ہے کیونکہ وہ بڑے شوق و ذوق سے کھاتے ہیں لیکن وہ لکھتا نہیں اور جب لکھتا ہے تو انگریزی میں جو ہم دیہاتیوں کے پلے نہیں پڑتی۔
سفر کی روداد لکھنے کی عادت سی ہوگئ ہے۔ مسافر کے لیے دو چیزیں اہم ہوتی ہیں یعنی رہائش اور طعام۔ اگر کوئی یہ ضروری سہولیات فراہم کرے تو اس بندے کو یاد رکھنا بھی شکرانہ نعمت کی ادائیگی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس لیے آج کے کالم میں ان کا ذکر کرنا چاہوں گا۔

گلگت میں ہماری پہلی دعوت مس زئینہ کے گھر میں ہوئی جو آغا خان ہیلتھ سروس پاکستان کے آئی ڈیپارٹمنٹ واقع جوٹیال گلگت میں ڈاکٹر زبیدہ سرنگ کے سٹاف میں آپٹو میٹریسٹ ہے۔ اس کا میکہ یسین کے زوندرے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے گھر والوں سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔ بہت ہی مہمان نواز لوگ ہیں۔ اس کا سسر انجنئیر میر غیاث صاحب پی ڈبلیو ڈی سے بحیثیتِ ایگزیکٹو انجینئر ریٹائرڈ ہیں۔ اس وقت پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ایک پروجیکٹ کے سربراہ ہیں، یہ پروجیکٹ سپیشل پروٹیکشن پروگرام کے نام سے محکمہ پولیس کے اہلکاروں کے لیے محفوظ رہائش گاہیں اور دفاتر وغیرہ بنانے کا کام کرتا ہے۔ ان صاحب کو بہت ہی اعلےٰ میزبان پایا۔ انتہاہی منکسر المزاج شخصیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے ہماری خاطر مدارت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ کھانا بہت ہی لذیذ تھا جس میں گلگت میں مروج ہر قسم کی خوراک موجود تھی۔ مرغ بریانی، پلاو، سبز ساگ، مکس سبزی، چنا چاٹ،چھوٹے گوشت کی کڑائی، چیکن روسٹ، یخنی، گھر کی لسی اور دہی، نوع بہ نوع سلاد، کھیر، فرنی الغرض اللہ کی دی ہوئی ہر نعمت دسترخوان کی زینت بنی تھی۔ میں نے بھی کسی حد تک ان نعمتہائے خداوندی کے ساتھ انصاف کیا۔ ان لذیذ نعمت ہائے خداوندی کی تیاری میں زئینہ بیٹی اور ان کے دیور کے ہاتھوں کا کمال تھا۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اس گھر میں شینا کے ساتھ ساتھ کھوار بھی بولی جاتی ہے کیونکہ زئینہ بیٹی کی مادری زبان کھوار ہے۔ اس نے اپنی مادری زبان کو اپنے سسرال میں را ئج کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ یہ خاندانی پھلتا پھولتا رہے۔

ہماری دوسری شکم پروری کا بندوبست میری چھوٹی بچی ڈاکٹر رئیسہ خان کی کالج فیلو اور سہیلی  کامسیٹ یونیورسٹی ایبٹ آباد کی گریجویٹ، انجنئیر ثریا حرمت خان کے یہاں ہوا۔  اس کے والد ماجد حرمت صاحب اعلے تعلیم سے آراستہ ماہر تعلیم ہیں۔ آغا خان ایجوکیشن سروسز کے ساتھ درجنوں عہدوں پر کام کرنے کے بعد ملازمت سے سبکدوش ہو گئے ہیں۔  چند برس یو ایس ایڈ کے ساتھ بھی کام کیا۔ اس وقت خانہ نشین ہیں اور مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔ سیرت اور صورت میں کمال ہیں۔ اپنی روایتی مہمان نوازی کا بھر پور مظاہرہ کیا اور ہمیں بہت عزت دی۔ اس گھرانے کا تعلق بھی شینا سپیکنگ علاقے سے ہے البتہ گھر میں کھوار بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ بتایا گیا کہ ثریا کی نانی کی مادری زبان کھوار ہے۔ اس قسم کی کئی مثالیں سامنے آئیں کہ گلگت بلتستان کے علاؤہ ملک کے اندر جہاں جہاں کھوار پہنچی ہے کسی خاتوں کے ذریعے سے ہی پہنچی ہے۔ یہ اعزاز بھی ماں بہن بیٹیوں کے کھاتے میں جاتا یے، مرحبا!
حرمت خان صاحب کے گھر میں بھی انواع و اقسام کے کھانوں سے دسترخوان کو مزین کیا گیا تھا۔  ہم نے مقدور بھر کھایا، پیا اور اللہ کا شکر ادا کیا اور میزبانوں کو برکت کی دعاء دی۔
ایک اتوار کو سنگل میں ہماری بھتیجی بیگم صمد میر ( میرے چچازاد بھائی میر بیاز خان مرحوم کی بڑی بیٹی) اور میری نواسی فرزانہ محب کو ملنے گئے۔ فرزانہ کے گھر دوپہر کا کھانا کھایا۔ بہترین اور ہر قسم و ذائقہ کا طعام دسترخوان پر سجایا گیا تھا۔ کھانا خوب ڈٹ کر کھایا۔ اس کے سسر عجائب خان  نے اپنے باغات کی سیر کرائی جہاں کالا کولہ اور رائل گالہ سیب کے چھوٹے چھوٹے درخت پھلوں سے لدے پھندے زمین بوس تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ الله کی یہ مخلوق الله کی نعمتوں کا شکر بجا لا رہی ہے۔ بادام پک چکے تھے اور انجیر کا آخری موسم تھا۔ میں نے درخت سے اتار کر خوب کھایا کیونکہ یہ میوہ قرآن پاک میں مذکور اور صحت کے لیے اکسیر ہے۔ یہاں کا انجیر بڑا اور میٹھا ہوتا ہے۔
عجائب خان کافی بڑی جاگیر کے مالک ہیں اور پیشے کے لحاظ سے ٹھیکے دار ہیں۔ خوش مزاج، متوضع اور قدردان آدمی ہیں۔ صمد میر بیٹا اور اسکی اہلیہ بھی دعوت میں ہمارے ساتھ شریک رہے۔ سنگل والوں کی مادری زبان شینا ہے لیکن کھوار بھی بولتے ہیں۔ میری بھتیجی، اس کا شوہر،  نواسی، محب اور ان کے والدین نے ان کے ساتھ رات بسری کے لیے بڑا اصرار کیا لیکن ڈاکٹر زبیدہ اور صاحب کریم اپنی ڈیوٹیوں کے سلسلے میں متفکر رہے کہ صبح سنگل سے بروقت گلگت پہنچنا ان کے لیے آسان نہیں ہوگا اس لیے واپس روانہ ہوئے۔ رخصت ہوتے وقت نواسی نے تحفے بھی پکڑا دیے گویا اہل غیرز بھی کھو روایات کی تقلید کرتے ہیں کیونکہ نواسی فرزانہ محب کے گھر ہماری پہلی آمد تھی۔ نواسی فرزانہ گورنمنٹ اسکول ٹیچر ہے اور اس کا شوہر محب آغا خان ایجوکیشن سروس کے ساتھ اکاؤنٹنٹ ہے ۔ بہت اچھا بچہ ہے۔ اللہ پاک اس گھرانے کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے۔

جوانی کے دنوں پیٹ بھرتا کبھی نظر نہیں آیا اگرچہ رازق نے پیدائش سے لے کر آج تک رزق فراواں ہی عطا فرمایا ہے۔ میری بیگم کی تائی کا قول تھا' " میں شیرولی خان بیٹے کے لیے کھانا بڑے شوق و ذوق سے بناتی ہوں کیونکہ وہ میرے ہاتھ کا کھانا شوق سے کھاتا ہے"۔ در اصل  تائی اماں مرحومہ کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ وہ خوب کھاتا یا بسیار کھاتا ہے۔ ہاں میں بیسیار خور تھا اور مزہ لے لے کر کھایا کرتا تھا۔ میری چھوٹی ماں یعنی چچی محترمہ، بیگم شیر نبی خان مرحوم جو حیات ہیں کہا کرتی تھیں،" اپنے اس بیٹے کو کھانا کھاتے دیکھتی ہوں تو میری اشتہا بھی بڑھ جاتی ہے"- آج جب دسترخوان پر بہت سارا کھانا چنا جاتا ہے تو اس بات پر دل ہی دل میں افسوس کرتے ہیں کہ ہر قسم کی خوراک سے صرف چند نوالے ہی کھا پائیں گے۔ میزبان کا شوق مہمان نوازی تشنہ رہ جائے گا ۔ اس لیے ضیافتوں میں شریک ہونے سے پہلو تہی کرتا ہوں اور پھر ڈرتا بھی ہوں کہ کہیں ناشکری کا مرتکب نہ ہو جاوں۔ اپنے بہت ہی پیارے شاگرد اور بھتیجے شمس الحق قمر کو بار بار ٹالتا رہا۔ در اصل میں اپنی پیاری بہن اور بیٹی حبیبہ شمس کو تھوڑا سانس لینے اور کمر سیدھی کرنے کا موقع بھی دیتا رہا کیونکہ ان کے ہاں مہمانوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں اور وہ ملازمت کے ساتھ ساتھ باورچی خانہ سنبھالتے سنبھالتے کانٹا بن گئی ہے۔

میرے ایک اور تابعدار اور قدردان عزیز کرنل سلطان علی کا فون بھی آیا تھا کہ ان کے ساتھ کسی وقت کھانا کھائیں۔ برخوردارم کرنل سلطان اور اس کی بیگم  کا بھی ہمارے ساتھ قریب کا رشتہ ہے۔سلطان علی بھتیجا اور اس کی اہلیہ بھتیجی لگتی ہے (برادرم شمسیار خان کی دختر نیک اختر، شمس الحق قمر کی ہمشیرہ)۔ دونوں میاں بیوی پیار و محبت سے معمور بچے ہیں۔ ان کے ہاں ایک دن شام کا کھانا کھانے گئے۔ گاڑی بھیجی کیونکہ اپنے پاس نہیں تھی۔ چمن میں بیٹھے قدرتی ماحول کا لطف اٹھایا۔ انہوں نے بڑی خاطر مدارت کی اور بہترین کھانا کھلایا۔ رنگ رنگ کے  بہترین پکوان سامنے تھے، لیکن  انصاف نہ کر سکا جس کا افسوس رہے گا۔ ہادی محمد غوث خان کو کرنل کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملا اور مجھے کرنل کے فرزند کلاں سے اس کے پالتو باز کے مطالق انٹرویو کا موقع ملا۔ یہ باز ہمارے قریب اپنی میز پر پابند سلاسل بیٹھا شریک محفل تھا۔ یہ سیاہ چشم نسل کا شکاری پرندہ ہے۔ میرا علم پرندوں سے متعلق صفر ہی ہے۔ کاش! دام چپاڑی کے فرزند حاکم مرحوم رحمت اکبر خان رحمت ہوتے تو اس پرندے کا پورا شجرہ نسب بیان کرتے۔
قمر اور حبیبہ قمر کی دعوت اور نیر شمس کی محفل موسیقی گلگت میں ہماری آخری دعوت تھی۔  خوہرم و دخترم حبیبہ شمس کے ہاتھ کھانا پہلے بھی بہت کھا چکے ہیں۔ اس مرتبہ پیاری پوتی تشفین شمس کی معاونت بھی شامل تھی۔ تشفین بہترین آرٹسٹ بن چکی ہے۔ فائن آرٹس میں ماسٹر کر چکی ہے۔ اس کی بنائی ہوئی تصویریں میری توجہ کا مرکز رہیں۔ بڑی پیاری بچی ہے۔ اللہ خوش و سلامت رکھے!
حبیبہ شمس کے لیے میں نے دختر اور خوہر کے الفاظ استعمال کیے کیونکہ وہ میری بیگم کی ماموں زادی اور میرے شاگرد اور بھتیجے کی شریک حیات ہیں۔ مہر و محبت سے معمور بیٹی ہیں۔ اللہ پاک انہیں خوش و خرم رکھے! ان کے لذیذ کھانوں سے لطف طعام اٹھانے کے بعد نیر شمس سے رباب پر دھنیں سنیں۔ قمر نے خوردنی تیل کی پلاسٹک بوتل کو طبلہ بنایا تو اور بھی مزہ آیا۔ بیٹا رباب پر دھنوں کی بہار اگائی تو بابا نے طبلہ کی تال ملا کر پھول کھلائے۔ ہم بھی گنگنا کر جوانی  جگانے کی کوشش کی۔ نیر شمس ایک ابھرتا ہوا نے نواز، ستار نواز اور ربابی بچہ ہے۔ اس کا مستقبل روشن ہے کیونکہ بہت ذہین اور مہذب بچہ ہے۔ اللہ اس کی ساری امیدیں بھر لائے کیونکہ گلگت میں ہماری سب سے بڑھ کر خدمت کی۔ ہمیں گلگت بلتستان کے شہر شہراور گاؤں گاؤں گھماتے پھراتے، موسیقی سناتے بھی رہا اور رہنمائی بھی کرتا رہا۔ خوش و خرم رہو نئیر شمس!

Comments

  1. سر، آپ کا مضمون حرف بہ حرف پڑھ کے دلی آسودگی ہوءی ۔ الفاظ کو جس نہج سے پرویا ہے، قابل صد تحسین ہے ۔ آپ کے قلم پر میرے اور میرے خاندان کے فرد فرد کا نام آنا میرے لیے اتنا بڑا اعزاز ہے کہ لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا ۔ ہماری دانست میں ہم اپنا فرض اپنے ناقص انداز سے نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں ، کسی نشست میں آپ کی شرکت محفل کو چار چاند لگاتی ہے اور آپ کی صحبت و رفاقت میں بیتنے والے لمحات قسمت کے دھنی لوگوں کو نصیب ہوتے ہیں ۔آللہ آپ کی محبتوں کے سایے ہمیشہ ہمارے اوپررکھے آمیں

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی