حسرت ‏کی ‏یادیں

حسرت کی یادیں۔   (شیرولی خان اسیر)

دی نہیں اس زندگی فانی نے مہلت
چھین لی یاروں سے پیار و محبت!
حلقہء یاراں کو ہے مشکل یہ فرقت
آہ حسرت! آہ حسرت! آہ حسرت!
'داغ داغ ہو' مہجور تو، دل اسیر  !
پیاروں کو ہوئی وداغ کی جو عُجلت

دل اور قلم نہیں مان رہے کہ گل مراد خان حسرت کو مرحوم لکھوں۔ شاید اس کی وجہ اس فانی زندگی کے لمبے سفر کی ہمراہی تھی ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ میں ان کی اس اچانک سفر آخرت اختیار کرنے کے بارے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ زندگی ایسی پرفریب ہے کہ موت یاد نہیں رہتی خاص کرکے اپنے پیاروں کی موت کی سوچ دل و دماغ میں جگہ ہی نہیں پاتی یا ہم جو سن بوجھہ کر اس حقیقت کو بھول جانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب صدمہ واقع ہوتا ہے تو اپنے آپ کو یہ جھوٹی تسلی دی جاتی ہے کہ میرا پیارا مرا ہی نہیں ہے۔ یہیں کہیں ہوگا۔ آج نہیں تو کل ملے گا۔

آج میرے بہت ہی عزیز بہنوئی، طویل عرصے کا لنگوٹیا یار، مشفق استاد گل مراد خان حسرت کی وفات کے چالیس دن گزر نے کے بعد بھی میرا دل اس حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ وہ ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے ہیں۔ حقیقت کی سوچ کر دل لہولہاں ہو جاتا ہے۔
حسرت صاحب کے ساتھ میرے کئی قریبی رشتے تھے۔ وہ میری والدہ ماجدہ کے ماموں زاد بھائی تھے۔ میرے استاد  تھے۔ میری چھوٹی بہن کے شریک حیات تھے۔ میری بھانجی کے دیور تھےاور عمر بھر کے دوست تھے۔ ہمراز تھے، غمخوار تھے، مونس و ہمدم تھے۔ میرے لیے محترم ہونے کے باوجود مجھے بےجا احترام دے کر شرمندہ کیا کرتے تھے۔ میں ایک عظیم رشتے سے محروم ہو گیا ہوں۔

حسرت نے زندگی کا آغاز لاڈ پیار سے کیا تھا۔ شاید اس وجہ سے وہ اپنے والدین کے علاوہ سارے عزیزو اقارب کے آنکھوں کا تارا تھے کیونکہ چار بیٹیوں کے اوپر بڑی تمناؤں اور دعاؤں کے بعد ان کی ولادت ہوئی تھی۔
بچپن اور لڑکپن نازونعم میں گزارا۔ اپنی مرضی کا لباس پہنا، اپنی پسند کا کھانا کھایا۔ ماں باپ کے علاؤہ سارے رشتے داروں اور والد کے شاگردوں کا لاڈ پیار ملا۔ والد صاحب کی تجوری سے پیسے نکال کر اسکول کے ساتھیوں میں بانٹنا یا لڑکوں کے ہجوم پر اچھال کر تماشا کرنا ان کا مشغلہ تھا۔ اس آزادی اور پیار محبت کی فراوانی نے ان کی طبیعت پر مستقل اثرات چھوڑے جن کا اظہار زندگی بھر کرتے رہے۔ نازک مزاجی، زود رنجی، آرام طلبی، کاہلی، گھر پسندی اور خوش خوراکی ان کی شخصیت کا مستقل حصہ بنیں۔ اس لیے دوست احباب اور رشتے دار ہر کوئی ان کا بہت خیال رکھا کرتا تھا۔

مستوج کے مڈل اسکول سے تحصیل علم کے بعد چترال کے ہائی اسکول میں دو سال کا عرصہ انہوں نے بڑی مشکل میں گزارا تھا۔ والدین اور گھر سے دوری بورڈنگ ہاؤس کی رہائش اور معمولی خوراک اسے قابل قبول نہیں تھی۔ ایک دفعہ غالباً اسکول چھوڑ کر گھر بھاگا بھی تھا۔ پھر انہیں واپس لایا گیا تھا ۔ میٹرک کے بعد کالج جانے کا سوچا بھی نہیں۔ شاید ان کے والد محترم بھی ان کے ہائی اسکول کے تجربات سے بھانپ لیا تھا کہ ان کا بیٹا چترال سے باہر ٹک نہیں پائے گا اس لیے انہیں آگے پڑھانے کا خیال دل سے نکال لیا۔
حسرت صاحب نے  1961 میں میٹرک پاس کیا تو اگلے سال انہیں مدرسی کی ملازمت مل گئی اور ان کی تقرری مڈل اسکول مستوج میں ہوئی تھی۔ میں اس وقت ساتویں کلاس میں تھا۔ وہ سارے اساتذہ میں سب سے نوعمر تھے۔ کم و بیش دو سال میں ان کا تلمذ رہا۔ ان کی تدریس بے حد موثر ہوتی تھی۔ دل لگا کر پڑھایا کرتے۔ نہ کبھی اپنے پریڈ سے غیر حاضر رہتے۔ کام چور طلبہ کی گوشمالی میں کبھی رعایت نہیں کرتے۔ ان کی لکھائی بہترین کاتبوں جیسی تھی۔ ہم اس کی نقل اتارنے کی ناکام کوشش کرتے رہےلیکن ان کا طرز تحریر اپنا نہ سکے۔

1964-65 کے سیشن میں گورنمنٹ ٹیچرز ٹریننگ اسکول لندی کوتل سے جونئیر اینگلو ورنیکولر یعنی جے اے وی کی تربیت حاصل کی۔ اگر ان کے بہنوئی حاجی خان استاد، مرحوم استاد عرفان الدین ورکوپ، استاد چنگیز خان مرحوم شوگرام جیسے ساتھی ان کے ساتھ نہ ہوتے اور ہر وقت ان کا خیال نہ رکھتے تو شاید وہ ٹریننگ بھی مکمل نہ کر پاتے۔ ان کے ساتھ تربیت پانے والے اساتذہ بتایا کرتے تھے کہ گل مراد خان حسرت صاحب کو کورس کی کتابیں پڑھتے کبھی نہیں دیکھا پھر بھی بہترین نمبروں سے امتحان پاس کر لیا۔ مدرسی کی تربیت حاصل کرنے کے بعد اپنی تعلیمی استعداد بڑھانے کی کبھی فکر نہیں کی۔ شاید اس وجہ سے کہ وہ میٹرک ہوتے ہوئے ماسٹر کی قابلیت رکھتے تھے۔
جب میں ایف اے کا طالب العلم تھا میں ہر ملاقات یا خط و کتابت میں انہیں ایف اے کا امتحان دینے پر آمادہ کرنے کو کوششیں کرتا رہا لیکن ناکام رہا۔ پھر میں نے انٹر پاس کیا اور تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ ہماری ملاقاتیں ہفتوں دو ہفتوں میں ہوا کرتی تھی۔ میں نے انہیں آمادہ کرنے کوششیں جاری  رکھیں لیکن وہ ٹالتے رہے۔ بہانہ یہ تھا کہ شاگردوں کے ساتھ امتحانی ہال میں بیٹھنا شرم کی بات ہے۔ آخرکار بڑی مشکل سے اس نے میری بات مان ہی لی جب میں نے اس بات پر زور دیا کہ شاگردوں کے مقابلے میں علمی استعداد کا پست ہونا زیادہ شرم کی بات ہوگی۔
  1972 میں بغیر تیاری کے ایف اے کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں پاس کرلیا۔ غالباََ ان کے داخلے کی کاروائی بھی میں نے ہی کی تھی۔ وہ اپنے کاہل پن کے سبب داخلوں اور تیاری کی جھنجھٹ سے فرار اختیار کرتے تھے.
1974 تک میں بھی خواب خرگوش کے مزے لیتا رہا۔ پھر بی اے کرنے کا خیال آیا۔ میں نے حسرت صاحب کو بھی ترغیب دلانے کی سعی کی کہ چلو بی اے کا امتحان دیتے ہیں۔ اس وقت بھی ان کے پاس وہی ایک بہانہ ہی تھا۔ کہنے لگے" بھائی! کیا ہم اپنے شاگردوں کے ساتھ امتحان میں بیٹھیں؟ مجھے تو شرم آتی ہے۔ خدا ناخواستہ اگر فیل ہوگئے تو لوگوں کو کیا منہ دکھائیں گے؟"۔ میں نے کسی نہ کسی طرح ان کا یہ بہانہ بھی ناکام بنا دیا۔ تیاری کے لیے ہم نے صرف ایک سیٹ کتابیں خریدیں جو زیادہ وقت میرے پاس ہوتی تھیں۔ چترال میں امتحانی سنٹر نہیں تھا۔ ہمیں سیدو شریف جانا پڑا۔ امتحان سے پہلے جب بھی ہم ملتے تو وہ  یہی کہتے رہتے کہ "ہم بوڑھے اساتذہ نوجواں شاگردوں کے ساتھ کیسے امتحان دے سکتے ہیں؟" ان کی آخر دم تک کوشش رہی کہ وہ بی اے کے امتحان سے جان چھڑائے۔ میں نے ان کی یہ دلیل ہر دفعہ مسترد کر دی۔ ان کا بڑاپن تھا کہ وہ میری کوئی بات رد نہیں کرتے تھے۔ چاروناچار میرے ساتھ سیدو شریف روانہ ہو ہی گئے۔
ودودیہ ہال میں جب ہم اپنی نشستوں پر بیٹھے تو میں نے ساتھی امیدواروں پر نظر دوڑائی تو حسرت صاحب کے دائیں پہلو میں اس کے برابر بیٹھے ایک شخص پر میری نظر ٹھہر گئی۔ سفید داڑھی، موٹے شیشے کے چشمے لگائے ، جوابی پرچے کو اپنی آنکھوں کے قریب تر پکڑ کر لکھ رہا تھا۔ میں نے حسرت صاحب کو اشارہ کیا کہ اپنے دائیں پہلو کی طرف ذرا دیکھو۔ جب اس نے اس بزرگ امیدوار کی طرف دیکھا تو ان کی ہنسی چھوٹ گئ۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی ہنسی پر قابو پا لیا تھا کیونکہ جب ایک دفعہ ان کو ہنسی آتی تو اس کا قہقہہ رکنے کا نام نہیں لیا کرتا ۔ اس کے بعد پھر کبھی اس نے بڑھاپے کا بہانہ نہیں بنایا۔ بی اے کا نتیجہ آیا تو ہم دونوں فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوگئے تھے۔ اتفاق سے ہمارے نمبر بھی برابر تھے۔ اگلے سال اسے لے کر بی ایڈ کے لیے کالج آف ایجوکیشن پشاور یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ ہمارے ساتھ نشکو کے نور محمد صاحب بھی تھے۔ یہاں بھی حسرت صاحب کا حلقہ یاراں محدود ہی رہا۔ ہم تین چترالیوں کے علاوہ پشاور شہر کے جاوید اختر (ر) پرنسپل کبھی کبھی ہمارے گروپ کا حصہ بنتے تھے۔ کالج سے باہر ڈاکٹر محبوب حسین، انجینئر خالد جمیل اور معراج خان ہمارے گروپ میں شامل رہے۔ یونیورسٹی کے ہاسٹل نمبر 6 میں ہم ایک ہی کمرے میں رہائش رکھتے تھے۔ میں نے ان کو نصابی کتب پڑھتے بہت کم پایا۔ عام معلوماتی اور ادبی کتابوں کا مطالعہ ان کا وسیع تھا۔اخبار اور ڈائجسٹ پڑھنا ان کا مشغلہ تھا۔ 1976 میں پہلی دفعہ ہمارے کالج میں سمسٹر سسٹم متعارف کرایا گیا تھا۔ فائنل امتحان میں حسرت صاحب  کے مجموعی اوسط نمبر (CGAP) مجھ سے زیادہ آئے تھے۔

1978 میں ہیڈماسٹروں کی آسامیوں کے لیے صوبائی پبلک سروس کمیشن نے اشتہار دیا تو اس وقت میں اور فراست خان صاحب پشاور میں تھے۔ ہم نے حسرت کے لیے بھی داخلہ فارم جمع کرایا۔ جنوری 1979 میں ہماری ایس ای ٹی کی اسامیوں پر تعیناتی ہوگئی۔ ان کی ہائی اسکول کھوت میں پوسٹنگ ہوئی اور میری مڈل اسکول بیہمی لوٹکوہ میں۔ موسم بہار کی چھٹیوں کے چند دن بعد ہمارا کمیشن کا امتحان تھا۔ بہار کی چھٹیاں گزارنے کے بعد جب میں یارخون سے پرکوسپ پہنچا تو حسرت صاحب کو امتحان کے لیے تیار نہیں پایا۔ کہنے لگے "مجھے امتحان دینے کا ارادہ نہیں ہے۔ تیاری بھی نہیں کی ہے۔" اس مرتبہ ان کو راضی کرنے کی میری ساری کوششیں رائیگاں گئیں اور مجھے اکیلا ہی روانہ ہونا پڑا۔ زندگی میں پہلی دفعہ اس نے میری بات نہیں مانی تھی۔ چترال میں مکرم شاہ صاحب سے ملاقات ہوئی اور ہم ہمسفر بن گئے۔ حسرت صاحب کو فوجی حکومت کے اندر انصاف اور میرٹ پر بالکل یقین نہیں تھا کیونکہ ملک میں سفارش اور رشوت کا کلچر پہلے ہی فروع پا چکا تھا اور ہمارے پاس نہ سفارش تھی اور نہ رشوت دینے کی مالی حیثیت تھی۔ اگر ہوتی بھی تو ہم دونوں اس معاملے میں انتہائی نالائق تھے۔
جب جون 1979 میں صوبائی پبلک سروس کمیشن نے سرکار کو سفارشات بھیجیں تو اس میں چترال سے مکرم شاہ صاحب،  صمدگل صاحب اور میرے نام کامیاب امیدواروں میں شامل تھے۔ یہ دیکھ کر حسرت صاحب پشیمان ہوگئے کیونکہ سلیکشن میریٹ پر ہوا تھا۔ جب 1982 میں ہیڈماسٹر کی آسامیوں کے لیے صوبائی پبلک سروس کمیشن نے درخواستیں طلب کیں تو انہوں نے بلا حیل و حجت داخلہ فارم بھیجا۔کمیشن کا امتحان پاس کیا اور ہیڈ ماسٹر بن گئے۔ ان کے ساتھ بلبل ولی خان صاحب، گل نواز خان صاحب، مرحوم محبوب الٰہی صاحب اور شیردل امان صاحب بھی پاس ہوگئے تھے۔ اس دوران بلبل صاحب کے ساتھ ان کی دوستی گہری ہوگئ۔
اپنے انتظامی عہدے کے ساتھ انہوں نے ہر ذمے داری پر پورا پورا انصاف کیا۔ ایک قابل منتظم تھے۔ دیانتدار تھے۔ انصاف سے کبھی انحراف نہیں کیا۔ انہوں بحیثیت سب ڈویژنل ایجوکیشن آفیسر چترال زیادہ عرصے تک خدمات انجام دیں۔ کوئی دو سال گرنمنٹ ہائر سکینڈری اسکول بغدادہ ضلع مردان کے پرنسپل بھی رہے۔ اپنی آخری سالوں کی سروس ایگزیکٹیو ڈسٹرکٹ آفیسر دیر بالا کی حیثیت سے انجام دینے کے بعد 2006 میں ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔ دینین چترال میں گھربناکر زیادہ وقت وہیں گزارنے لگے تھے۔ عیدین پر اپنے آبائی گھر واقع پرکوسپ آیا کرتے تھے۔ اس عرصے میں ہماری ملاقاتیں بہت کم ہوتی تھیں البتہ فون پر ایک دوسرے کے حال احوال پوچھا کرتے تھے۔
حسرت کو خداوند تعالیٰ نے قابل رشک ذہانت سے نوازا تھا۔ ایک مرتبہ کوئی تحریر پڑھنے کے بعد پھر پڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ ان کا حافظ بلا کا تھا۔ علمیت کے لحاظ سے وہ ایک خاموش سمندر کے مانند تھے۔  جب کبھی اس سمندر میں ذرا سی جنبش پیدا ہوتی تو بے شمار موتیاں بکھر جاتے۔ انہیں علم و عرفان کے ہر موضوع پر مکمل عبور حاصل تھا۔ وہ ہر فن مولا تھے۔  وہ عالم و فاضل تھے۔ شعرو شاعری پر مکمل قدرت رکھتے تھے البتہ بہت کم لکھتے اور جو لکھتے ان کی نقول محفوظ کرنے کرنے کا خیال نہیں رکھتے۔ اکثر اوقات اپنے اشعار ضائع کیا کرتے تھے۔ سن ستر کی دھائی میں ان کی ایک ڈائری پر میری نظر پڑی تھی جو غزلوں اور نظموں سے بھری تھی۔ بعد میں جب میں نے اس کے بابت پوچھا تو اس نے بتایا کہ اسے جلا دیا ہے۔مجھے بے حد افسوس ہوا تھا ۔انہوں نے بہت کچھ لکھا تھا۔ ممکن ہے کچھ محفوظ بھی ہوں۔  انہیں کھوجنا ہوگا۔
میرے پاس ان کے نعتیہ کلام کا ایک بند محفوظ ملا جو انہوں نے غالباََ سن ستر کی دھائی کے آخری سال یا اسی کے اوائل میں رحمت اکبر خان رحمت کے گھر چپاڑی ڈام میں عید میلاد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک تقریب میں سنایا تھا۔

ہسے عربو باچھا، عجمو باچھا ہسے
کھاڑ جہاناں سردار امام الانبیاء ہسے
کھلی مخلوقاتن موژی پاک بو صفا ہسے
حبیب دی پروردگارو اسپہ مصطفے ہسے
زخمیوتے شفا ہسے، دردوتے دوا یی نیسائے
ہدایتو ای روشت یور غار حرا یی نیسائے

میں اپنی کمزور قوت حافظ کی وجہ سے ان کا کوئی کلام زبانی یاد نہیں رکھ سکا سوائے ان کی ایک غزل کے دو اشعار کے جسے انہوں نے کسی طرحی مشاعرے کے لیے محمد شکور غریب کی مشہور غزل  کی زمین پر لکھی تھی۔
مس موخی،شوکھور لوئ،مخمور غیچی
خوش رویو نمانتے غیرووم چھوی انوس
ته روشتی بے کھنار، حسرت ته طلبگار
ذرہ ته ݰخرا تے غیرووم چھوی انوس

حسرت صاحب کو کھوار افسانہ نویسی پر قدرت حاصل تھی۔ انہوں نے بہت سارے افسانے لکھے تھے جن میں سے گیارہ افسانوں کا مجموعہ " چیلیکیو چھاغ" کے نام سے چھپ چکا ہے۔ یہ بھی شہزادہ تنویر ملک صدر انجمن ترقی کھوار کی کاوشوں سے ممکن ہوا تھا جس کا اعتراف انہوں نے اس مجموعے کے پیش لفظ میں خود کیا ہے۔

ان کے مزاج کی سادگی کا یہ حال تھا کہ کبھی کبھار معمولی بات پر غصے میں بپھر جاتے تو طوفان کا منظر ہوتا۔ البتہ ان کا غصہ بہت جلد ٹھنڈا ہوا کرتا تھا۔ وہ ہر کسی کی کہی بات کو سچ مان لیا کرتے تھے۔
انجان لوگوں کی نظر میں حسرت خشک مزاج والے آدمی تھے کیونکہ وہ عام محفلوں میں کھلتے نہیں تھے۔ گویا وہ ایک بند کلی تھے۔جب ان کے قریبی دوستوں کی محفل ہوا کرتی تو کھل اٹھتے اور محفل کو زعفران زار اور معطر بنا دیا کرتے۔ طنزو مزاح سے محفل لوٹ لیا کرتے۔ جوانی میں موسیقی کی محفلوں میں شرکت ان کے محبوب مشاعل میں شامل تھی۔ ستھار پر موسیقی بڑے شوق سے سنتے اور جھومتے۔ خود ستھار بجانے کی بھی کوشش کیا کرتے۔ بہترین ستھار نوازوں کے ریکارڈز ان کے پاس ہر وقت موجود رہتے تھے۔ ان کی شاعری کی زبان اور افسانوی بیان ان کے جمالیاتی ذوق کے اعلے نمونے ہیں۔
حسرت صاحب ایک بہترین دوست، مہربان باپ، انتہائی پیار کرنے والا اور خیال رکھنے والا شوہر، عزت و احترام کی مٹھاس سے لبریز رشتے دار تھے۔ ان کی وفات سے دوستوں اور عزیزوں کو جس صدمے سے گزرنا پڑا ہے اس سے نکلنے میں وقت لگے گا۔ چترالی ادب و ثقافت کو جو نقصان پہنچا ہے وہ ناقابل تلافی ہے۔اللہ پاک ان کی دائمی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے، آمین! انا للہ واناالیہ راجعون۔

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی