نواز اینڈ فیملی کی سزا

  اس تاریخی فیصلے کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ بچہ بچہ پڑھ اور سن چکا ہے۔ ایک طرف عوام اور تجزیہ نگار احتساب عدالت کے اس فیصلے کی تعریف کر رہے ہیں اور اسے انصاف کا فیصلہ قرار دے رہے ہیں تو دوسری طرف ن لیگ اور نواز کے ہمدرد اسے جانبدارانہ فیصلہ کہہ کر اس میں قانونی نکتے ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہم جیسے لوگ جن کی نواز کے ساتھ نہ دوستی ہے اور نہ دشمنی اور نہ قانون کے باریک نکتوں سے واقف ہیں، حیران و پریشاں ہیں کہ عدل آخر کس چڑیا کا نام ہے؟ اور عدالت کو کس طرح کا فیصلہ کرنا چاہیے تھا کہ دونوں گروہ خوش ہوجاتے؟ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ہر کوئی قانون دان اور منصف ہے اس لیے ان کو پاکستان کی عدالت کے اندر کمزوریاں نظر آتی ہیں۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ ملک کے اندر ہر بڑے فیصلے کے پیچھے ان کو فوج کا ہاتھ ہی نظر آتا ہے۔  اس فیصلے کے بعد ایسا تاثر دینے کی  کوشش کی جارہی ہے کہ ملک  کے سیاسی لوگ ہی سچے اور محب وطن پاکستانی ہیں اور یہی لوگ ہی دانائی اور بصیرت رکھتے ہیں باقی عوام للو پنجو ہیں ۔ایک طرح سے ان کی بات درست ہے کہ عوام عقل و شعور نہیں رکھتے ۔  سن نوے کی دھائی اس بات کی گواہ ہے کہ عوام نے باری باری ان لوگوں کو ہی اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھایا جن  کی حکومتیں نااہلی کی بنیاد پر برخاست ہوچکی تھیں اور انہیں  برخاست کرنے والے منتخب صدور تھے۔ 2008 میں پی پی پی کو ملک کا اقتدار چعتھی مرتبہ سونپ دیا گیا جس کی تھوڑی صلاحیت رکھنے والی لیڈر بھی شہید ہوچکی تھیں اور پارٹی اس آدمی کے ہاتھ میں آگئی تھی جن کی بدعنوانیاں ضرب المثل بن گئی تھیں۔ پورے پانج سال کرپشن کا بازار گرم کرنے کے بعد اگلے انتخابات  میں قوم نے اسے مسترد کردیا اور دوسری پارٹی کو اقتدار کے تخت پر بٹھایا جس کے صدر اور ملک کے وزیراعظم  کی کم عقلی کے سبب ملک میں مارشل کا نفاذ ہوا تھا کیونکہ اس نے پاک فوج کے سپہ سالار غیر ملکی دورے کے دوران ملازمت سے سبکدوش کرنے اور ان کے جہاز کودشمن ملک میں اتارنے کا انتہائی بھونڈا حکم صادر کیا تھا۔اور اس سے پہلے اسکی منتخب حکومت کا نااہلی کی بنیاد پردھڑن تختہ ہوا تھا۔
اس مرتبہ ملک کی عدالت میں اس کی کرپشن کے خلاف مقدمہ چلا اور ثابت ہوا کہ وہ اور اس کے بچوں کے پاس ان کے قانونی ذرائع آمدنی سے کئی گنا زیادہ اثاثے ہیں اور ان اثاثوں کی قانونی حیثیت ثابت کرنے میں وہ نہ صرف ناکام ہوئے بلکہ اسمبلی فلور پر اور عدالت کے سامنے غلط بیانی کے مرتکب بھی  ہوئے۔ ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے خیانت کرنا اور جھوٹ  اسے مجرم ثابت کرنے کے لیےکافی
تھے۔ لہذا عدالت نے انہیں سزائیں سنائیں جو عین انصاف ہے۔اگر ایک معمولی سرکاری ملازم اپنے جائز ذرائع آمدن سے زائد پراپرٹی رکھنے پر ملازمت سے سبکدوش ہوسکتا ہے اور قید با مشقت کی سزا پاسکتا ہے اور اسکے اثاثے بحق سرکار ضبط ہوسکتے ہیں تو ملک کا وزیر اعظم اور اسکے زیر کفالت افراد عربوں کی غیر قانونی دولت کے مالک ہونے کی سزا کیوں نہیں   پاسکتے۔ عوام کو امید ہے کہ ملک کے اندر دوسرے بدعنوان ں افراد کا بھی محاسبہ ہوگا چاہے وہ سیاستدان ہوں، بیروکریٹ ہوں ، آرمی آفیسر ہوں یا کاروباری افراد سب کو عدالت کے کٹھہرے میں کھڑا کرکے ان سے حساب لیا جائے گا اور پاکستانی عوام کو ان سے نجات دلائی جائے گی۔ اگر ایسا نہ ہوا  تو انصاف کا تقاضا پورا نہیں ہوگا اور عدالت پر جانبداری کی انگلی اٹھتی رہے گی۔




Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی