گل مراد حسرت کے افسانوں کا مجموعہ
"چیلیکیو چھاغ"             شیرولی خان اسیر

گل مراد خان حسرت کے افسانوں کا مجموعہ " چیلیکیو چھاغ" کھوار افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے جو چھپ کر مارکیٹ میں آچکا ہے۔ اگرچہ یہ گیارہ افسانوں کی ایک چھوٹی سی کتابی صورت میں ہمارے ہاتھوں میں ہے تاہم اس کی اہمیت بڑی قدوقامت رکھتی ہے کیونکہ نثری کھوار کی اس صنف میں یہ  پہلی کتاب ہے جو کھوار لائیبری کی زینت بنی۔ اگرچہ کھوار افسانے دوسرے لکھاریوں نے بھی لکھے ہیں لیکن ان کی کتابی صورت ہمارے سامنے نہیں آئی ہے۔ حسرت صاحب کھوار افسانہ نگاروں میں سب سے زیادہ افسانے تخلیق کئے ہیں جو جمہوراسلام کھوار اور دوسرے رسائل میں چھپتے رہے تھے۔ یہ مجموعہ ان کے نصف کا بھی احاطہ نہیں کرتا۔ ممکن ہے ان کی تالاش میں مصنف کو مشکل پیش آئی ہو کیونکہ صاحب کتاب فطری طور پر کاہل مزاج واقع ہوئےہیں جس کا انہیں خود بھی اعتراف ہے۔۔ جس زمانے میں انجمن ترقی کھوار اپنے شباب کے دور سے  گزر رہی تھی اور جسے ڈاکٹر فیضی جیسے توانا جسم و دماغ کے حامل صدر کی قیادت حاصل تھی تو انجمن کانفرنسیں منعقد کیا کرتی تھی اور ان کی روداد کی کتابی صورت " آئینہ کھوار" کی ترتیب تدوین کا سہرا حسرت صاحب کے سرسجا کرتا تھا۔  گزشتہ لمبے عرصے سے حسرت کی کوئی ادبی سرگرمی نظر نہیں آرہی تھی اور میں جب بھی ان سے ملتا انہیں ترغیب دلانے کی اپنی سی کوشش کرتا رہتا تھا، "بھائی خدا کیلیے اپنے اندر کا علمی خزانہ دوسروں کے ساتھ شئیر کریں"۔ وقتی طور پر میرے ہاں میں ہاں ملاتے پھر چپ کا روزہ رکھ لیتے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ گل مراد خان حسرت صاحب ایک قابل ترین استاد،  ماہر تعلیم، ادیب، شاعر اور قدیم و جدید علوم پر دسترس رکھنے والے ہستی ہیں۔ ان کے اندر دنیا جہاں کا علم چھپا پڑا ہے جسے تحریری صورت میں کھو سوسوئیٹی  کی نئی نسل کو منتقل کرنے کے لیے حسرت صاحب کو مسلسل تحریک دلانے کی ضرورت ہے۔ موصوف جب چترال میں بس گئے اور ڈاکٹر عنایت الل فیضی اور شہزادہ تنویرالمک کی ہسائیگی اختیار کی تو ہمیں امید ہو چلی تھی کہ حسرت صاحب کے تخلیقی صلاحیتوں کو مہیمیز ملے گی۔ جب ان کی یہ کتاب انجمن ترقی کھوار کے جوان برنا صدر شہزادہ نتنویرالملک کی کوششوں، اکادمی ادبیات اسلام آباد کے مالی تعاون سے اور ادارہ نوائے چترال لاہور کے زیر انتظام، انجمن ترقی کھوار چترال نے شائع کی تو مجھے بے حد خوشی حاصل ہوئی کہ حسرت صاحب نے نہ صرف چپ کا روزہ توڑ ڈالا بلکہ کھوار ادب کی لائیبریری کی یہ کمی بھی دور کردی اور کھو قاری کا یہ شکوہ بھی نہ رہا کہ انہیں کھوار افسانے پڑھنے کو دستیاب نہیں ہیں۔ زہے نصیب  حسرت صاحب کا رہرو خامہ پھر سے چل پڑا ہے جو انشا اللہ رکے گا نہیں۔
کتاب کے اندر ترتیب کے لحاظ سے پہلے افسانے کے نام پر کتاب کا نام رکھا گیا ہے جو انتہائی مناسب لگا کیونکہ افسانہ "چیلیکیو چھاغ" کو عشقیہ افسانوں میں ماسٹر پیس کہا جاسکتا ہے جس کا المیہ انجام قاری کے دل میں انمٹ درد چھوڑ جاتا ہے۔ باقی افسانے کھشان، پھشی ݯوکیرو، آزاری بے زاری، اویلو انوس،دوا گو،اسقالو چے گوروڑی، تتو دور، ای ݯھوتیار،پوشیو نیت وا گدیری مرزا سب کے سب اسم با مسمی، اصلاحی اور سبق آموز ہیں۔ زیر نظرافسانوں میں فاضل مصنف نے معاشرے کے اندر آہم ترین مختلف اصلاحی موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور بڑی خوبصورت انداز میں انہیں اجاگر کیا ہے۔ ہر افسانے کا نام پرکشش ہے اور اس کی کہانی قاری کے تجسس اور دلچسپی کو برقرار رکھتے ہوئے آگے بڑھتی ہے اور مرکزی خیال کے گرد گھومتی ہوئی اختتام پذیر ہوتی ہے۔   ایسا لگتا ہے کہ افسانہ نگار اپنا مدعا قاری تک پہنچانے میں پوری طرح کامیاب ہوا ہے۔ زبان و بیان دونوں کھوار ادب اور معاشرت کے بہترین خدوخال سے مزین ہیں۔  یوسف شہزاد صاحب کا پیش لفظ اور شہزادہ تنویر صاحب کا مختصر تبصرہ حسرت صاحب کے افسانوں کی فنی خوبیوں اور اہمیت پر دلائل محکم کا کام دیتے ہیں۔ مصنف نے افسانے کی صنف پر جامع مضمون بھی شامل کتاب کیا ہے جو ادب کے طالب علم کے لیے بہترین تخفہ ہے۔ باقی قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ وہ کس طرح سے ان تخلیقات کا استحسان کرتے ہیں۔ میں حسرت صاحب کی اس قابل قدر ادبی خدمت پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی