Performance Evaluation Report

کسی بھی عہدے کے لیے اہلیت کا معیار مقرر ہوتاہے۔ یہ معیار تعلیمی اور پیشہ ورانہ اسناد اور متعلقہ امتحان/ ٹیسٹ پاس کرنے سے مشروط   ہوتاہے۔ پہلے زمانے میں  امتحان لینے والے اداروں کے جاری کردہ ڈگریوں  اور سرٹفیکیٹس پراعتماد تھا اس لیےگریڈ 17 اور اوپر کی سرکاری ملازمت کےلیے صوبائی پبلک سروس کمیشن کے سامنے زبانی انٹرویو میں کامیاب ہونا لازمی تھا۔ بعد میں باقاعدہ تحریری امتحان پاس کرنے اور میرٹ پر آنے کی شرط رکھی گئی جو آج بھی قائم ہے۔  البتہ نچلے درجے کی ملازمتوں کے لیے بھی اہلیت جانچنے کا ادارہ قائم ہوا جو این ٹی ایس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اگرچہ لوگ اس کی شفافیت پر بھی انگلی اٹھا رہے ہیں تاہم اس سے ملازمین کےکانتخاب کے معاملے میں تھوڑی بہت بہتری آگئی ہے۔ ویسے ہمارے یہاں پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کی شفافیت پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ پھر بھی کمیشن پاس کرنے والے کم از کم اسی نوے فیصد ملازمین اپنے اپنے  مفوضہ کام سر انجام دینے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں۔
سرکاری ملازمت میں داخل ہونے کے بعد ملازم کی اپنے فرائض انجام دینے کی صلاحیت رکھنے اور آگے ترقی دینے کی اہلیت کا جائزہ ہر سال کیلنڈر سال کے اختتام پر ان کے افسران بالا ایک رپورٹ کے ذریعے لیتے رہے ہیں کہ ختم ہونے والے سال کے دوران فلان ملازمی کی کاردگی کیسی رہی؟ کیا اس نے مقررہ معیار کی کارکردگی دکھائی ہے یا نہیں؟ کیا وہ ملازم آگے ترقی کی اہلیت رکھتا ہے یا نہیں؟ ایک ملازم کی شخصیت سےلےکر اخلاقیات، قابلیت، رہن سہن کے سارے طورطریقوں کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا جانا ہوتا ہے۔ اس مفصل رپورٹ کا نام پہلے اے سی  آر یعنی
Annual Confidential Report
تھا۔ بعد میں اس کا نام
Performance Evaluation Report
رکھا گیا۔ نام بدلنے سے اس کام کی اہمیت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ یہ غیر ضروری مشق غیر ضروری ہی رہی کیونکہ نہ تجزیہ ایمانداری کے ساتھ کیا جاتا رہا اور نہ اسے صیغہ راز میں رکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کسی ملازم کی ترقی کی باری آتی ہے تو اوپر کے حکام کا حکم آتا ہے کہ "گزشتہ دس سالوں کی کارکردگی رپورٹس جلد از جلد دفتر ہذا کو پہنچائیں" ترقی کامنتظر ملازم جس نے ہر سال جنوری کے پہلے ہفتے حسب روایت جائزہ رپورٹس کی تین تین نقول تیار کرکے اپنے  رہورٹنگ افیسر کےحوالے کرچکا ہوتا ہے پھر سے گزشتہ دس سالوں کی رپورٹیں ایکادن کے اندر تیار کرکے اپنے رپورٹنگ افسران کے پیچھے دوڑ لگاتا ہے۔ ان دس سالوں کےدوران انہی افسران میں سے کئی ایک ریٹائر  ہوچکے ہوتے ہیں اور کئی دور کہیں تبدیل ہوچکے ہوتے ہیں اور بعض دنیا سے بھی رخصت ہوچکے ہوتے ہیں۔  کسی نہ کسی طرح منت سماجت کرکے ادھر اُدھر سے رپورٹین لکھوا کر متعلقہ دفتر کےحوالے کر جاتا ہے۔ اس قسم کی رسمی کاروائی کے بعد وہ افسر ترقی کا حقدار بن کر ترقی کا زینہ چڑھتا جاتا ہے۔حقیقی اہلیت  اور نااہلیت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔  یوں محض رسمی کاروائی کے نتیجے میں ایک نااہل ادمی بھی ایک اہم ذمے داری کی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ ہمارے ملک کےاداروں کی کارکردگی کا زوال اس وجہ سے شروع ہوا اور اب بھی جاری ہے۔
یہ جو کچھ میں نے لکھا ہے یہ سب کچھ مجھ پر گزرا ہے اور میرے جیسے لاکھوں  ملازمین اس قسم کی فضول مشق کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا نئے پاکستان  بنانے کا عزم مصمم  رکھنے والوں نے سرکاری ملازمین کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لینے کے اس آہم ترین کام کو بامعنی بنانے کا بھی سوچا ہے؟

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی