دورہ ترکی سلسلہ 4

آرکیالوجیکل میوزیم استنبول

جیسا کہ بتایا تھا کہ ٹوپقپی سرائے کے بیرونی صحن میں آثار قدیمہ کا عجائب گھر بھی قائم ہے۔ بائیں ہاتھ میں ایک گلی نیچے اترتی ہوئی موجود ہے جس کے دونوں اطراف میں رکھے پتھر کی دیو قامت تابوتوں کو دیکھ کر خوف سا ہونے لگتا ہے کہ کہیں ان کے قدیم مکین باہر نہ کود پڑیں اور سیاح کو ہراسان نہ کریں۔ ان پر جو لکھائی نظر آرہی تھی وہ ہماری سمجھ سے بالاتر تھی کیونکہ یہ قبل مسیح کے انسانوں کے مدفن ہیں ۔ اس گلی کے آخر میں دائیں طرف عجائب گھر کا دروازہ ہے جہاں ٹکٹ خریدنے کے لیے قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ اپنی بیمار کمر پہ ہاتھ رکھے توپقپی سرائے کے اندر دو گھنٹے گھومنے کے بعد حالت میری بہت پتلی تھی اور آثار قدیمہ کا عجائب گھر دیکھے بغیر آج یہاں سے اپنی رہائشگاہ واپس ہوتا تو اگلے دن پھر آنا پڑتا۔ یہاں سے اوچیلار  جہاں ہمارا عارضی ٹھکانہ تھا ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے اور سفر نصف حصہ ٹرین پر اور نصف میٹرو بس پر کرنا ہوتا ہے کیونکہ ٹیکسی ہم جیسے سیاحوں کے لیے قابل برداشت نہیں ہے اور دوسری بات اور خاص کرکے مشاہدہ کر نے والوں کے لیے ٹیکسی مناسب نہیں ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کر نے کا بڑا فایدہ یہ ہے کہ مختلف لوگوں سے ملنے اور عوامی رویوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ بھی بتاتا چلوں ایک پاکستانی کے لیے ترکی کا  ٹرانسپورٹ سسٹم بہترین ہے جبکہ یوروپی کے لیے معمولی ہے۔ دخترم ڈاکٹر زبیدہ سرنگ اسیر  اور داماد صاحب کریم خان  پچھلے ایک  برس سے أئیرلینڈ میں ہیں۔ اس کے علاؤہ انہوں نے فرانس، جرمنی، نیدرلینڈ اور یونان کی سیر بھی کی ہیں۔ ان کے بقول یورپ کی پبلک ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں ترکی کی سروس ناقص ہے۔ یہاں کی بسیں اور ٹرین دونوں ایرکنڈیشنڈ ہیں۔ ہر دو تین منٹ کے بعد گاڑی آتی ہے۔ اس کے باوجود آپ کو زیادہ تر چھت کے ساتھ لٹک لٹک کر سفر کرنا پڑتا ہے کیونکہ مسافروں کا ہجوم کبھی کم نہیں ہوتا۔ تاہم ہچکولے بہت کم کھانے پڑتے ہیں۔ بوڑھے جوان، مرد عورتیں سب کھڑے کھڑے سفر کرتے ہیں جس میں صنف مخالف کے ساتھ ٹکرانے کا ڈر ہمیشہ دامنگیر رہتا ہے گو کہ ترک اس قسم کے" ٹکراؤ" کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے۔ ہم پاکستانی اس معاملے میں بظاہر محتاط لوگ ہیں اور بباطن۔۔۔۔۔۔۔  خیر!خاص کرکے مجھ جیسا کمرخمیدہ سن رسیدہ بندے کو کچھ زیادہ ہی احتیاط کرنا پڑتی ہے۔
اصل بات تھکاوٹ کی تھی۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر سلطان محمت (محمد) کا علاقہ نزدیک ہوتا تو اگلے موقعے پر واپس آکر اطمینان کے ساتھ  عجائب گھر دیکھ سکتا تھا۔ اس لیے انتہائی تھکن کے باوجود میں نے آج اس میوزیم کا دورہ ختم کرنا چاہا اور قطار میں استادہ ہونے کی ہمت باندھ ہی لی گو کہ قطار میں اپنی باری کا انتظار میرے لیے جان جوکھوں کا کا کام تھا۔ اس فرسودہ پرانی گلی میں دھوپ بھی زیادہ تپش دکھا رہی تھی۔ بھلا ہو  ڈاکٹر زبیدہ بیٹی کا جو  میرے ساتھ تھی۔ اس نے کسی طرح ٹکٹ گھر کی کھڑی میں پہنچنے کی راہ نکال ہی لی اور ٹکٹ لاکر مجھے تھما دیا۔ خود ان کہنہ عمر چیزوں کو دیکھنے کا شوق نہیں رکھتی ہے کیونکہ ان سے ڈرتی ہے۔ دو تین سال کی عمر میں میری یہ بچی کچھ زیادہ ہی شریر اور نڈر قسم کی تھی۔ اس لیے اس کی ماں نے اسے بلی، چوہے، کتے وغیرہ سے ڈرا ڈرا کر اسے چپ کرانے اور شرارت سے باز رکھنے کی کوشش کیا کرتی تھی۔ میں ہر وقت بیگم سے لڑتا رہتا تھا کہ میری بچی کو ان جانوروں کا خوف دلاکر اسے کم ہمت کروگے۔ وہی ہوا جس کا حدشہ تھا۔ عجائب گھر کی گلی میں ایک سنگی تابوت کی چھت پر محو خواب کالی بلی کو دیکھ کر ہی ڈر گئی تھی۔ اس لیے یہاں بھی مجھے اکیلا ہی قدیم روحوں کی بستی میں داخل ہونا پڑا۔  صحن میں رکھے ہوئے ہزاروں سنگین مجسموں، بتوں، کتبوں اور تابوتوں کو سرسری نظر سے دیکھنے کے بعد اندرونی حصے میں داخل ہوا۔ عجائب گھر کے دروازے کے اندر قدم رکھتے ہی ایک دقیانوسی لاش سے ملاقات ہوئی جو اپنی سنگین تابوت میں محو خواب تھی۔  تابوت کا ڈھکنا نہیں تھا۔ لاش کسی کپڑے میں لپٹی لگتی تھی۔ شاید ممیائی ہوئی تھی۔ لیکن سر کا ڈھانچہ انسانی کی بے بسی کا مظہر تھا۔دوسری تابوت  بند تھی البتہ اس طرح تراشی گئی تھی کہ ڈھکن پر بنا ہوا مجسمہ اپنے خالق کی تعریف پر مجبور کر رہا تھا۔ غالبا سنگ مرمر کا تھا۔
اس طرح ایک کمرے سے دوسرے پھر تیسرے  چوتھے الغرض درجنوں کمروں میں سجے قدیم کے یہ آثار دیکھے جن کی تخلیق 2700 قبل مسیح ع سے لے کر آٹھارویں صدی عیسوی تک کے عرصے میں ہوئی ہے۔ ان میں یونزن، مصر اور جزائر عرب سے لائے ہوئے نمونے بھی ہیں۔ ان میں اس زمانے کے بادشاہوں کے تابوت اور کتبے بھی شامل ہیں۔ کتبوں پر لکھائی  بھی قدیم زبانوں کی ہے۔ اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ آج سے کم و بیش ساڑھے چار پانج ہزار برس قدیم کا انسان بھی پڑھا لکھا تھا اور فن خطاطی، مصوری، برتن سازی اور بت تراشی میں ماہر تھا۔ یہاں کے سنگین کتبوں اور دیو قامت تابوتوں پر انسانوں اور مختلف جانوروں کی شکلیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ اس زمانے کا انسان کچھ کم ذہین و فطین نہیں تھا ایک اندازے کے مطابق  آثارقدیمہ کے دس لاکھ نمونے اس عجائب گھر میں محفوظ ہیں جو آثار قدیمہ کے طالب علم کے لیے بڑی  دلچسپی کے باعث ہیں۔
جاری ہے

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی