دورہ ترکی۔سلسلہ 3

توپقپی سرائے( Topkapi palace)

استنبول کا مشہور ترین مقام سلطان احمد نیلی مسجد اور آیا صوفیا میوزیم کے علاوہ توپقپی سرائ کی وجہ سے بھی شہرت رکھتا ہے۔ توپقپی کا لغوی معنی توپ دروازہ کے ہے۔ ترکی میں قپی دروازے کو کہتے ہیں اور سرائے محل کو کہتے ہیں جو انتہائی مناسب نام لگا۔ یہ محل سلاطین عثمانیہ کی آہم ترین یادگار ہے جس کا ایک حصہ فتح استنبول کے چھہ سال بعد 1459 میں فاتح سلطان احمد ثانی نے تعمیر کرایا تھا۔ اس کے بعد آنے والے سلاطین دوسرے حصوں کو شامل کرتے رہے۔میمار سنان، سرکیس بالیان، عجم علی اور داؤد آغا مختلف ادوار میں اس محل کے آرکیٹیکٹ تھے۔ چار سو سال تک یہ سلاطین عثمانیہ کی رہائشگاہ اور انتظامی مرکز رہی۔ اس کا ابتدائی نام " سرائ جدید عامرہ" تھا۔ آٹھارویں صدی عیسوی تک یہی نام تھا۔ سلطان محمود اول کے دور میں اس کا نام توپقپی رکھا گیا۔ یہ محل 1478 سے 1853تک شاہی رہائشگاہ اور انتظای مرکز کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ جب سلطان عبدالمجید اول نے بوسفورس کے کنارے ایک نئ محل" دولما بہجا"(Dolmabahce Sarayh) تعمیر کرائی تو 1856   میں شاہی رہاشگاہ وہیں منتقل ہوئی۔ اس کے بعد  1924 تک یہ اعلے سرکاری آفیسروں کی رہائشگاہ رہی۔ 1924 کو اتاترک نے اسے میوزیم میں بدل ڈالا۔ لب بحیرہ مارمارا پر واقع ٹوپکپی محل میں ہر وقت سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ ہر رنگ و نسل کے افراد یہاں ملتے ہیں۔ یہ محل آیا صوفیا کے نزدیک قائم ہے توپقپی محل پانچ کورٹ گارڈز پر مشتمل ہے ۔ سارے صحن ایک قدیم اونچے حصار کے اندر الگ الگ دروازوں والی چاردیواریوں کے اندر قائم ہیں۔ بیرونی صحن یعنی فرسٹ کورٹ یارڈ سیاحوں کے لیے بغیر داخلہ فیس کے صبح 9 تا شام 4 بجے تک کھلا رہتا ہے۔ اس کا بیرونی دروازہ باب ہمایون کہلاتا ہے۔اسی صحن کے اندر آثار قدیمہ کا میوزیم اور ایک گرجا آیا ارینا چارچ قائم ہیں۔ یہاں سیاحوں کے آرام کے لیے رہگزر کے اطراف میں بنچیں اور چنار سایہ دار درختوں کے نیچے مخملی گھاس موجود ہے۔ ساتھ ہی ٹکٹ گھر اور کیفی ٹیریا بھی ہے۔ بیرونی کورٹ اور سیکنڈ کورٹ کے درمیان والا ( Gate of Salutation) سلامی دروازہ کہلاتا ہے۔ یہاں سے سوائے مادر سلطان اور سلطان کے کوئی دوسرا سوار ہوکر نہیں گزر سکتا تھا۔ وزیراعظم کو بھی یہاں سواری سے اترنا پڑتا تھا۔ یہاں باہر سے آنے والے معزز ۔مہمانوں کو خوش آمدید کہا جاتا اور یہاں ان کو رخصت بھی کیا جاتا تھا۔ اس گیٹ میں سے گزر کر دوسرے صحن یعنی سیکنڈ کورٹ یارڈ میں داخل ہوا جاتا ہے جس میں ترکی کا بہت بڑا مشہور میوزیم قائم ہے۔ معائنہ فیس ساٹھ لیرا ہے جو پاکستانی کرنسی میں 1560 روپے بنتے ہیں۔ یہاں قسم قسم کے اسلحہ جات، فنون کی گیلری، لائبریری اور دوسرے نوادرات کے ایپارٹمنٹس قائم ہیں۔ دور عثمانیہ میں یہ حصہ بطور دیوان خاص اور دیوان عام استعمال ہوا کرتا تھا۔ درس و تدریس کا شعبہ بھی یہیں قائم تھا۔ باورچی خانہ اور خزانہ بھی یہیں قائم تھے۔اسے پریڈ کورٹ بھی کہتے تھے۔ اس حصے کے چاروں طرف عمارتیں ہیں ۔ دائیں طرف باورچی خانے کی عمارت قائم تھی اور جس میں ابتدائی زمانے میں روزانہ پانج ہزار افراد کے لیے کھانا تیار ہوتا تھا اور آخری دور میں یہ تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی تھی ۔ باورچی خانے کے ملازمین کی تعداد 4 سو تھی جو بڑھتے بڑھتے آٹھ سو سے تجاوز کر گئی تھی۔اس سے اگلا حصہ دو بڑے حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ بائیں طرف شاہی خواتین کی رہائشگاہ تھی جو حرم کہلاتی تھی۔ جو دیکھنے سے رہ گیا۔ اس کے ساتھ تیسرے حصے میں داخل ہونے کا دروازہ، سعادت کہلاتا ہے (Gate of Felicity )یہ حصہ سلطانوں کا دیوان خاص اور رہائشگاہ تھا  جہاں وہ غیر ملکی وفود اور اہم شخصیات کو شرف ملاقات بخشتے تھے اور ضروری سیاسی امور پر گفتگو کیا کرتے تھے۔ یہاں شاہی سکول اور شاہی خزانے کی عمارتوں کے علاؤہ حرم اور سلطان کے خاص خادموں اور محافظین کی رہائش گاہیں بھی تھیں۔۔ اس وقت اس کورٹ کو مذہبی تبرکات کا میوزیم بنایا گیا ہے جب کہ آخری حصہ خالص باغ ہے اور سمندر کے کنارے تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ حرم کی خواتین اور شہزادوں کے لیے مخصوص تھا۔ سلاطین عثمانیہ کے فتوحات کے یادگار چبوترے اس کورٹ کے اندر موجود ہیں۔ یہاں ختنہ گھر اور شاہی طبیب کا مطب بھی قائم تھے. محل کے مختلف حصوں اور عمارتوں کےفن تعمیر کا حسن جہاں ایک طرف سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا رہتا ہے تو دوسری طرف اس دور کے سامان حرب کی اقسام، آرٹ کے نمونے اور دوسری زیر استعمال اشیاء انسانی آنکھوں کو خیرہ کرتی رہتی ہیں۔ ان تمام نادر چیزوں کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سلطنت عثمانیہ کے سلاطین کی طرز رہائش اور شان حکمرانی ناقابل یقین حد تک اعلے و ارفع معیار کی اور عیش و عشرت کا نمونہ تھیں۔ چونکہ میں نے دولما بہجا محل ( Dolmabahce Palace) کا حرم والا حصہ پہلے دیکھا تھا اس لیے اس محل کا حرم والا حصہ دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی یا شاید وقت اور ٹانگوں نے ساتھ نہیں دیا کیونکہ کنکریٹ اور سنگ مرمر کے فرشوں پر چلتے چلتے ٹانگوں کی طاقت جواب دے گئی تھی۔  ایک تو یہ محل تاز دم توانا آدمی کےیے کم از کم تین گھنٹوں کی سیر مانگتی ہے اور مجھے دو گھنٹے میں ہارنا پڑا۔ بیگم صاحبہ پہلے ہی تھک ہار کر ایک جگہ بیٹھ کر نظارہ کرنے کو ترجیح دی تو صاحب کریم اور ڈاکٹر زبیدہ کو اپنے فرزند بیقرار ہادی محمد غوث کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا کیونکہ وہ کسی بھی نئی  چیز کو دیکھنے کے بعد اسے حاصل کر نے پر اتنا بضد ہوتا تھا کہ اس کی فرمائش پوری کیے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس لیے اسے باہر ہی مصروف رکھنا پڑتا تھا ورنہ زرق برق رنگوں کی چیزوں کو دیکھ کر وہ ہنگامہ کردیتا۔  یوں میں اکیلا بندہ ایک لفظ بولے بغیر دو گھنٹے مشاہدہ کرتا رہا۔ فوٹو گرافی بھی ممنوع تھی تاہم ایک پاکستانی کو "چوری "سے کون روک سکتا ہے؟ ہم نے بھی اہلکاروں کی آنکھوں سے بچ کر چند شاٹس لے ہی لیے البتہ متبرک ورثوں کی تصویر کھینچنے کی گستاخی اور خیانت سے اپنے آپ کو باز رکھا۔
اہل اسلام کے لیے محل کا تبرکات والا حصہ زیادہ قابل دید اور قابل صد احترام ہے۔ یہاں خزانہ کی عمارت میں الگ الگ کمروں میں مذہبی تقدس کے حامل نوادرات کو شو کیسوں میں محفوظ کیا گیا ہے۔ ایک کمرے میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا موئے مبارک، نقش پائے مقدس، دندان مبارک، تلوار، کمان اورخنجر محفوظ کئے گئے ہیں۔ جن کا دیدار ایک مومن کے لیے باعث راحت روح و جان ہے۔ حضرت عثمان رض کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن مجید بھی اس گھر کی زینت ہے۔۔ اسی طرح ایک الگ سے کمرے میں پنجتن پاک علیہم سلام کے تبرکات رکھے گئے ہیں۔ یہاں بھی رسول پاک صلی اللہ علیہ و یہ وسلم کی تلوار، علی علیہ سلام کی تلوار، حضرات حسنین علیہم سلام کی تلواریں، حضرت فاطمہ زہرا علیہا سلام کا پاک حرقہ اور صندوقچہ اور حضرت سید الشہدا حسین علیہ سلام کا جبہ مقدس محفوظ ہیں۔ خلفائے راشدین حضرات ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمان غنی رضوان اللہ اجمعین کی تلواریں، کمانیں اور ڈھالیں بھی ان تبرکات میں شامل ہیں۔ حضرت یوسف علیہ سلام کی پگڑی اور عصائے موسی علیہ اسلام بھی اپنے دیدار سے مشرف کرتے ہیں۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ کی تلواریں بھی یہیں رکھی گئی ہیں۔ حضرت جعفر رض کی تلوار کی لمبائی کم از کم چارساڑھے چار فٹ ہے جو سب سے بڑی تلوار ہے۔ ان مقدس یادگار اشیاء کو بار بار دیکھنے اور دل کی آنکھوں کو تازگی بخشنے کی آرزو پھر بھی تشنہ رہی۔ (جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی