دورہ ترکی سلسلہ 2

 سفر ترکی کے بارے میں کچھ لکھنے سے پہلے ترکی کے مختصر جغرافیہ اور تاریخ کے بارے قارئین کے معلومات
کو تازہ کرنا مناسب  ہوگا۔
جمہوریہ ترکی کے شمال مشرق، مشرق، جنوب مشرق اورجنوب میں بالترتیب جارجیہ، ازربائجان، آرمینیا،ایران، عراق اور شام کے ممالک اور میڈٹرینین سی ہے۔ اس کے شمال میں بلیک سی اور مغرب میں بلغاریہ اور یونان  کے ممالک ہیں۔ یہ دو براعظموں کے سنگھم میں ہے جسکا ایک حصہ ایشیا میں اور ایک حصہ یورپ میں واقع ہے۔
ترکی کا دارلحکومت انقرہ ہے۔ اسکی ابادی کم و بیش آٹھ کروڑ ہے۔ اس کی کرنسی لیرا ہے جو ہمارے روپیہ سے قیمت کے لحاظ سے چھبیس گنا  بڑا ہے۔ استنبول ترکی کے قدیم ترین تاریخی مقامات کا امین شہر ہے جہاں صدیوں پرانی انسانی تاریخ کی یاگاریں اس دور کےکاریگروں کے کمال فن  کی شاہد ہیں۔ اسی شہر میں بحر مارمارا اور بحر اسود آپس میں ملتے ہیں۔ شہر قونیہ حضرت مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت شمس تبریزی رحمت اللہ علیہ اور دوسرے صوفیائے کرام کے قدموں کے طفیل قابل احترام یے۔ ان کے علاوہ یہ ترکی یہی ہے جہاں کے کوہ جودی کی چوٹی پر حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی لنگر انداز
 ہوگئی تھی اور یہ بھی منقول ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ یہیں پرپر ہو تھی۔ یہاں بڑے بڑے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے مزارات بھی عقیدت مندوں کو دعوت دیدار دیتے رہے ہیں۔
ترکوں کی تاریخ کم از کم چار ہزار سال پرانی ہے۔ آج سے دو ہزار برس پہلے انکا مسکن وسط ایشیا تھا۔ پہلی صدی عیسوی کے دوران انہوں نے موجودہ علاقوں کو فتح کیا اور اپنا مسکن بنالیا۔۔ ترکی کاسابقہ نام اناطولیہ تھا۔ کئی  صدیوں تک اس پر یونانیوں کی حکومت رہی۔ چودھویں صدی عیسوی کےربع اول میں  عثمانیوں نے اسے فتح کیا۔ اور چھ سو سالوں تک بڑی شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا اور اتحادیوں سے  شکست کھائی جس کے نتیجے میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا۔ اتحادیوں نے  ترکی کا حصے بخرے کردیا  اور روس برطانیہ اور فرانس نے اسے  آپس میں بانٹ لیا۔
یہ وہ وقت تھا جب ترکی کے مرد آہن جنرل مصطفے کمال پاشا نے ترک قوم کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنے میں کامیاب ہوا۔  ترکوں نے جنرل مصطفے کمال پاشا کی قیادت میں آزادی کی جنگ اس طرح لڑی جس طرح قائد اعظم محمد علی جناح رح نے پاکستان کی جنگ لڑی تھی۔ 1919 سے لے کر 1923 کی مسلسل جدوجہد آزادی کے نتیجے میں ترک قوم اپنا کھویا ہوا ملک اور وقار واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔ 1923 میں موجودہ جمہوریہ ترکیہ وجود میں آیا۔ مصطفے کمال پاشا کو ترکوں نے اتا ترک یعنی " ترکوں کا باپ"  کے لقب سے نوازا۔ آج جہاں بھی نظر دوڑائیں مصطفے کمال کی دیو قامت تصویریں ہر جگہ آویزاں نظر آئیں گی۔  اتاترک نے ملک کو سیکولر جمہوری ملک میں بدل دیا اور ہر مذہب کے ماننے والوں کو مکمل مذہبی آزادی دیدی۔ ترکی زبان کی رسم الخط عربی ڈےسرومن میں بدل ڈالی۔ عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دلایا۔ آج زندگی کے ہر شعبے میں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ ان میں کسی قسم کی نسوانی کمزوری نظر نہیں آرہی۔
ترک مردو زن دونوں پینٹ شارٹ پہنتی ہیں۔ البتہ عورتوں کا لباس کچھ زیادہ ہی "شارٹ" نظر آتا ہے۔ اس کے باوجود وہ مردوں کی نگاہ غلط انداز سے محفوظ ہیں۔ ترک مرد ہماری طرح عورتوں کو گھورنے کی بیماری میں مبتلا نہیں ہیں۔ کوئی مرد کسی عورت کی طرف نظر اٹھا کر یا چرا کر نہیں دیکھتا۔ سب اپنے اپنے مشاعل میں مگن ہیں۔ بس کی سواری ہو یا ٹرین کی ترک لڑکیاں اور لڑکے عموماً کانوں میں ایرفون ٹھونسے آنکھیں سکرین پر جمائے رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ترکوں کے پاس فضول معاملاتِ دل کے لیے فرصت ہی نہیں ہے۔ حسن کے لحاظ سے دونوں اصناف باکمال ہیں۔ لمبے لمبے قد، صراحی نما گردنیں، ستواں ناک،  نیلی خوبصوت آنکھیں، لمبوترے گورے چہرے ہر کو اللہ نے دے رکھے ہیں۔ تاہم خواتین کی جسمانی ساخت تھوڑی سی بے ڈھول  لگتی
 ہے۔ ممکن ہے تنگ پتلونوں کی وجہ سے ہو۔ بڑی عمر کی عورتیں بال بھی مختصر رکھتی ہیں تاہم نوجوان لڑکیاں سنہرے لمبے بالوں میں نظر آتی ہیں۔
ترکوں کو پیار کرنے والے اور مہذب پایا۔ خاص کرکے پاکستانیوں کو بڑی قدر کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جب بھی پاکستان کا نام لے کر ہم نے اپنا تعارف کرایا ان کے چہروں پر مسکراہٹ کھیلی اور سینوں پر پہ ہاتھ رکھے ذرا جھکتا ہوا مصافحہ کیا۔ ان میں چند  ایک غصیلے اور  غیر ہمدرد اور ناشائستہ قسم کےافراد کیساتھ ارتباط  بھی ہوا۔ تاہم ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
ترکوں کی  تمباکو نوشی کی عادت اچھی نہیں لگی۔ ترک مرد ہو کہ عورت، جوان ہو کہ بوڑھا ہر کوئی سگریٹ کا دھواں اڑاتا ہوا نظر ائیگا۔ ان کی اس بری عادت نے نہ صرف ترکی کی صاف ستھری رہگزاروں، پارکوں اور بس کی انتظارگاہوں کو سگریٹ کے ٹکڑوں سے بدنما کردیا ہے بلکہ فضاء بھی سگریٹ کی بو سے بری طرح آلودہ رہتی ہے۔ دوسری یہ کہ  ترکوں کی خوراک مجھے پسند نہیں آئی۔ ان کے جن ہوٹلوں میں ہم نے کھانا کھایا وہ ذائقہ سے محروم تھا۔ یہ لوگ عموماً فاسٹ فوڈ سے کام  چلاتے ہیں۔  ہمارے ملک کا کھانا کہیں بھی نہیں ملا یا شاید ہمیں ایسے ریسٹورانٹ معلوم نہیں تھے۔ جب بھی ہم نے کسی ریستوران کا کھانا کھایا میرے پیٹ نے قبول نہیں کیا۔ اس لیے زیادہ تر میری بیگم صاحبہ خود ہی ہمارے لیے کھانا تیار کرتی تھیں۔ جس کےلیے ہم ان کے ممنون احسان رہے۔
ترکی کی سیاحت کرنے والے کو سب سے بڑی مشکل ذریعہ گفتگو ہے۔ ترک قوم کو  انگریزی کے ساتھ گویا دشمنی ہے۔ کوئی چار پانج فیصد افراد کو انگریزی کی شد بد حاصل ہے۔ جگہوں، بازاروں، دکانوں اور چیزوں کے نام سب کے سب ترکی میں لکھے گئے ہیں۔ جب تک ایک آدمی کو ترکی میں مستعمل حروف کے تلفظ کا علم نہ ہو تو وہ کوئی  لفظ
 درست تلفظ کے ساتھ ادا نہیں کرسکتا۔ اس لیے اشاروں سے کام چلانے کے سوا چارہ کار نہیں ہے۔ مثلاً انگریزی کا حرف سی جیم کی جگہ استعمال ہوتا ہے اور اس کے نیچے چھوٹا کنڈی نما حرف لگا ہو تو وہ چ کی آواز دیتا ہے۔ اسی طرح جہاں دال کا حرف استعمال ہوتا ہے وہاں ترک لوگوں نے
 ت لگا رکھا ہے۔ جیسا کہ محمد کو محمت احمد کو
احمت، مسجد کو مسجت لکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے ترکی اور کھوار میں مماثلت ہے۔ مجھےاس بات کا افسوس ہوا کہ ترکی جانے سے پہلے زبان سے متعلق معلومات حاصل کیوں نہیں کیے اور چند ضروری جملے کیوں نہیں سیکھا۔ گوگل کا ترجمان اور صاحب کریم اور ڈاکٹر زوبی ساتھ نہ ہوتے تو ہم میاں بیوی گھونگے تھے۔
ترکی پہنچنے کے بعد ایک دن مکمل آرام کیا اور قریبی ساحلی پارک کی سیر کی جو ہماری رہائش گاہ واقع اوچیلار سے تھوڑے فاصلے پر بہت ہی دلکش پارک ہے۔سمندر کے کناروں تک کی زمین سرسبزوشاداب گھاس اور مختلف قسم کے پودوں سے ہری بھری ہے ۔ سمندری لہروں سے سیرو تفریح کرنے والے کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ بڑے بڑے پتھروں کا ڈھیر لگا کر نہ صرف سمندری لہروں کی اچھل کود اور ساحل کی طرف پیش قدمی روکدی گئی ہے بلکہ سیاحوں کو بھی اس میں اترنے سے باز رکھا گیا ہے۔ اس پارک میں شہتوت کے پست قد درخت بھی ہیں جو بے لگام سیاحوں کے رحم و کرم پر اپنی ٹوٹی تڑی مڑی  شاخوں کا ماتم کر رہے تھے۔ یہاں بچوں کے لیے مختلف کھیلوں کا بھی اچھا خاصا انتظام ہے۔ ہم نے خوب انجوائے کیا۔ خاص کرکے ہادی نے بہت لطف اٹھایا۔ اور ہاں یہاں ایک ترک نے ہمیں کافی بے وقوف بنایا۔ ایک جگہہ ہمیں گولڈن مجسمہ نظر آیا۔ ہم نے اسے کافی غور سے دیکھا اور جب اس کے پاس سے آگے بڑھے تو اس میں حرکت پیدا ہوئی اور ہم ہونق ہو کر رہ گئے۔ اصل میں وہ گوشت پوست کا انسان تھا۔ اپنے آپ کو اس طرح میک اپ کروایا تھا اور اس طرح ساکن کھڑا تھا کہ اس پر مجسمے کا شبہ ہوتا تھا۔
 استنبول میں دوسرے دن ہم نے تاریخی مقامات دیکھنے کا  آغاز نیلی مسجد سے کیا۔ ہمہنے ٹریول ایجنٹ وغیرہ کی خدمات حاصل کرنے سے گریز کیا اور صرف اور صرف گوگل کی رہنمائی پر اکتفا کیا جس سے اخراجات کی کافی بچت ہوئی تاہم وقت کا خسارہ ہوا۔
نیلی مسجد
استنبول کی سب سے مشہور مسجد جو دنیا کی مشہور ترین مساجد میں سے ایک ہے نیلی مسجد کہلاتی ہے سلطان احمت کے نام مشہور مقام میں واقع ہے۔ یہ مسجد "سلطان احمت مسجت" کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اس کی تعمیر سترھویں صدی کے ربع اول یعنی 1609ء میں  عثمانی سلطان محمد اؤل کے حکم پر شروع ہوئی اور 1616  میں تکمیل کو پہنچی ۔ اس کے بنانے والے آرکیٹکٹ کا نام صدفکارمحمد آغا تھا جو شاعر بھی تھے۔
اسے نیلی مسجد اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا اندرونی حصہ نیلے ٹائیلوں سےبنا ہوا ہے۔ جو پھولوں کےایسے نقش و نگار سے مزین ہے کہ دیکھنے والے کی عقل حیران رہ جاتی ہے اور آنکھیں نظارہ کرتے کرتے سیر ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ مجھ
 جیسے کم علم اور ادبی زبان و بیان سے نابلد انسان کے لیے اس کی تعریف کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیونکہ میرے پاس وہ الفاظ نہیں جو حق استحسان ادا کر سکیں۔ اس کی ایک بڑی خاصیت اس کے چھ مینار ہیں جو کسی دوسری مسجد کے نہیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب چھ میناروں کی یہ مسجد بنی تو اسے مسجد حرم کے مقابل ٹھہرانے اور ہمسری کا حدشہ پیدا ہوا تو سلطان احمد نے مسجد حرم میں ایک اور مینار کا اضافہ کرواکر سات کروا دیا تاکہ مسجد الحرم کی انفرادیت برقرار رہے اور کوئی آنچ نہ آنے پائے۔
استنبول کی یہ نیلی مسجد اتنی بڑی نہیں ہے۔ اس کی تعمیر کا حسن اسے منفرد بنادیا ہے۔ مسجد جتنا بڑا اس کا صحن ہے جس کی چار دیواری بھی مسجد جتنی اونچی ہے۔ بیرونی دروازے جنوب کی طرف کھلتے ہیں۔ سارے بیرونی اور اندرونی دروازے اور کھڑکیاں سفید سنگ کے بنے ہیں۔ سامنے باغ ہے جہاں قسم قسم کے درخت استادہ ہیں اور نیچے پھولوں کی کیاریاں ہیں جہاں رنگ برنگے پھول دعوت نظارہ دیتے ہیں۔ انگلی جمعے کو یہاں نماز جمعہ ادا کر نے کا شرف ملا۔
سلطان احمد سکوائر:                           
   نیلی مسجد کے جنوب کی طرف اس کے بالمقابل آیا صوفیا کی تاریخی عمارت  کھڑی ہے۔ ان دو عظیم عمارتوں کے وسط میں بہت بڑا فوارہ ہے جس کے اردگرد خوبصورت روشیں اور پھولوں کی بڑی بڑی کیاریاں ہیں۔ یہ جگہ سلطان احمد سکوائر کہلاتی ہے۔
  اس مقام پر سب سے پہلے بازنطینی  شاہنشاہ جستینیانوس  نے 537 عیسوی میں گرجا بنوایا تھا کہتے ہیں کہ یہ اس گرجے کی تیسری تعمیر تھی۔ اس سے بھی پہلے 300عیسوی میں یہاں پہلا گرجا تعمیر ہوا تھا۔ اس کا نام آیاصوفیا یا ھاگیا صوفایا ہے اور جسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہتے ہیں۔  1453 ء میں جب فاتح سلطان احمد نے استنبول فتح کیا تو اس گرجے کو مسجد میں بدل دیا۔ یوں یہ قدیم عمارت 916 برس تک بطور گرجا استعمال ہوتی رہی۔ اس کے بعد 482 سالوں تک بحیثیت مسجد مسلمانوں کی عبادت گاہ رہی۔ جب اسے مسجد میں بدلا گیا تھا تو حضرت مریم علیہا سلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شبیہوں پر پلاستر کیا گیا تھا اور قرآنی آیتیں اور اللہ کے اسمائے حسنہ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت علی علیہ السلام، حضرات حسنین علیہم السلام اور حضرت عثمان غنی رض کے اسماء گرامی دیواروں پر لکھے گئے جو فن خوش نویسی کے اعلیٰ نمونے پیش کرتے ہیں۔ 1935  میں اتاترک کے حکم پر اسے میوزیم میں تبدیل کیا گیا اور حضرات مریم علیہا سلام اور عیسی علیہ سلام کی تصویریں پھر سےبحال کی گئیں۔ یوں آیا صوفیا کے اندر اسلام اور عیسائیت دونوں مذاہب کے خدو خال پائے جاتے ہیں۔  یہ عمارت بھی دیکھنے والوں کے لیے درست معنوں میں ایک عجوبہ ہے۔ آیا صوفیا کی یہ تاریخی عمارت آرکیٹکٹ اینتھونیوس اور ایسیڈوروس کے کمال فن کی یادگار ہے۔ (جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی