دورہ ترکی

ہماری پیاری بیٹی ڈاکٹر زبیدہ،  عزیز داماد صاحب کریم خان اور بہت ہی پیارا نواسہ  ہادی محمد غوث کو آئیرلینڈ گئے گیارہ مہینے گزرچکے تھے۔ ان کو ملنے کو جی بہت چاہ رہا تھا۔ اُدھر وہ بھی ہمیں بہت مس کر رہے تھے۔ خاص کرکے ہادی ہمیں اور ہم اسکو بہت یاد آ رہے تھے۔ سال کے شروع میں ہم ائیرلینڈ جانے کے لیے ویزے کی درخواست دی تھی۔ چند تکنیکی وجوہات کی بنا پر ویزا نہ مل سکا۔ پھر بچوں نے مشورہ دیا کہ ہم ترکی کا ویزا حاصل کریں اور وہ بھی ترکی آئیں گے تاکہ وہیں پر چند دن اکھٹے رہ سکیں اور ترکی کے تاریخی مقامات کی سیر بھی کرسکیں۔ مشورہ پسند آیا کیونکہ ترکی دیکھنے کی آرزو پہلے ہی سے دل میں موجزن تھی۔ خاص کرکے استنبول کے تاریخی مقامات اور قونیہ میں حضرات پیر شمس تبریز رحمتہ اللہ علیہ اور مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کے مزارات پر حاضری کی تمنا
 تھی۔ اس لیے میں اور میری اہلیہ نے ترکی کے پندرہ روز کے ویزا کے لیے درخواست جمع کرائی تو ایک ہفتے کے اندر اندر ویزا مل گیا۔ میں نے کہا،" مرحبا اپنا تو اپنا ہوتا ہے" بغیر کسی جھنجھٹ کے ترکی جانے کی اجازت مل گئی۔ اسی طرح پیچھلے سال ہم نے دُبئی کی سیر کی تھی۔ اس وقت بھی ویزا حاصل کرنے میں کسی قسم کی دشواری نہیں ہوئی تھی۔۔ 2016 میں ہمیں عمرہ کی سعادت ملی تھی۔ ترکی کا دورہ ہمارا تیسرا غیر ملکی دورہ تھا۔ ان سارے دوروں کا اہتمام ڈاکٹر سرنگ اور ان کے میاں صاحب کریم  اپنے شوق سے کر رہے تھے اوراکر رہےرہیں۔ کیونکہ وہ خود بھی سیرو سیاحت کے شوقین ہیں اور ہمیں بھی دنیا دکھانا چاہتے ہیں۔ قارئین کو کہیں یہ خیال نہ ہو کہ اسیر بچوں سے اس قسم کی خدمت فرمائش پر لے رہا ہے۔
آٹھ جون 2019  کی صبح  9 بجکر چالیس منٹ پر اسلام اباد انٹر نیشنل ائیرپورٹ سے بذریعہ قطر ائیرویز روانہ ہوگئے۔ یہ فلائیٹ ڈائیریک نہ تھی بلکہ قطر سےدوسری فلائٹ لینی تھی۔ اسلام آباد سے قطر تین گھنٹے کی پرواز تھی۔ اگرچہ ہوائی سفر کسی قسم کی پریشانی سے پاک تھا پھر بھی مجھے شدید درد سر ہوا یہاں تک کہ ناشتہ بھی نہیں کر پایا۔ صرف درد دور کرنے والی گولیوں پر گزارہ کیا جب کہ بیگم صاحبہ نے ڈٹ کر ناشتہ کیا۔ جبجقطر ائیرپورٹ پر اتر گئےگتو درد سر بھی غائب ہوا اور دل بھیبخوش ہوا۔ بہتبہی خوبصورت اوراہر قسم کی سہولیات سے پر ائیرپورٹ پایا۔ ڈھائی گھنٹے قطرائیرپورٹ پر ہی انتظار کر نے کے بعد دوسری فلائٹ سے ہم استنبول کے لیے روانہ ہوگئے۔ شاید انچائی پر پرواز کی وجہ تھی کہ سرکا درد پھر عود کر آیا اور میں نے پھر پنیڈول کے ذریعے اسے بھگانے کی کوشش کی اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوا۔ دوپہر کا کھانا اپنی مرضی کا موجود تھا یعنی "لیمب میٹ ویتھ رائیس" جسے پیٹ بھر کر کھایا۔ ویسے بھی عربوں کا کھانا پرذائقہ ہوتا ہے۔  قطر ائیرویز کو بہت ہی زیادہ آرام دہ اور عملہ کو بہترین خدمتگار اورخوش اخلاق پایا۔ مسکراہٹ ان کی آنکھوں میں ناچتی رہی اور کسی کی پیشانی پر بھی ترشی رو نہیں آئی۔ چار گھنٹے کی پرواز کے دوران ہم کویت، بغداد اور موصل وغیرہ کے اوپر سے گزرے۔ پونے سات بجے ہمارا جہاز استنبول کے پرانے ائیرپورٹ پر بخیریت اتر گیا۔ بڑی آسانی سے مائیگریشن کے مراحل سے گزرے۔ کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ یہاں ہمیں اپنی بیٹی ڈاکٹر زبیدہ سرنگ اور اس کی فیملی کا انتظار کرنا تھا۔ انکی آئیرلینڈ سے آمد دو گھنٹے بعد متوقع تھی۔ ہمیں ایک ساتھ  استنبول میں اپنی عارضی رہائشگاہ روانہ ہونا تھا۔ ہم سامان وصولی کی جگہے پر ہی ان کا  انتظار کرنے لگے تاکہ آسانی سے ایک دوسرے کو پا سکیں۔ آپس میں رابطے کا کوئی دوسرا ذریعہ نہ تھا۔ جب ان کی آمد کا متوقع وقت گزر گیا تو ہمیں پریشانی لاحق ہوئی اور ہمیں بہت ہی زیادہ ذہنی کوفت اور جسمانی تھکن سے گزرنا پڑا۔
ہمیں یقین تھا کہ استنبول کے ائیرپورٹ میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہوگی۔بدقسمتی سے ایسا نہیں تھا۔ اب ہم اپنے بچوں سے رابطہ نہیں کرسکتے تھے کیونکہ ہم نے ترکی کا موبائیل سم بھی نہیں خریدا تھا۔ دوسرا بہت بڑا مسلہ یہ تھا کہ ائیرپورٹ عملے کو ترکی زبان کے علاوہ کوئی زبان نہیں آتی تھی۔ بین الاقوامی آمد کے دروازے کے باہر
انفارمیشن ڈیسک پر ڈیوٹی کرنے والی خاتون بھی انگریزی پوری طرح  سمجھ نہیں پا رہی تھی تاکہ ہماری رہنمائی کرسکے نیز اس کا رویہ بھی درست نہیں تھا۔ اسے فون پر کسی سے گفتگو سے فرصت نہیں مل رہی تھی۔ مسافروں کی رہنمائی سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔  مملکت ترکی کے اس قدیم ائیرپورٹ پر جدید سہولیات کی عدم موجودگی اور سہولت کاروں کی ناقص کارکردگی دیکھ کر بہت افسوس ہوا اور ایک طرح کی مایوسی ذہن پر مسلط ہوگئی۔
بچوں کی ائیرلینڈ سے آمد ساڑھے آٹھ بجے شام متوقع تھی۔ہم نے ساڑھے نو بجے تک سامان وصولی کے ایریا میں ہی ان کا انتظار کیا۔ جب وقت زیادہ گزر گیا تو ہمیں شک پڑ گیا کہ شاید وہ باہر نکل چکے ہوں اور ہم بھی باہر نکل گئے اور مسافروں کے ہجوم میں ان کو تلاش کرتے رہے۔ ہمیں ایسا لگ رہا تھا کہ کہیں رات ائیرپورٹ پر ہی نہ گزارنا پڑے۔ جہاں عارضی رہائشگاہ کرایے پر لیا گیا تھا اس کا درست پتہ بھی ہمارے پاس نہیں تھا۔ میں نے آخری کوشش کے طور پر ائیرپورٹ کی دوسری منزل پر دوبارہ چڑھ گیا کیونکہ گراؤنڈ فلور پر وہ خاتون اپنے کیبن سے غائب ہوگئی تھی۔ اوپری منزل میں انفارمیشن ڈیسک پر بیٹھی لڑکی سے گزارش کی کسی طرح وہ ہماری مدد کرے کہ ہم کم از کم اپنے رہائشی مقام پر پہنچ سکیں۔ اس بچی نے بڑی ہمدردی کا مظاہرہ کیا اور اپنے انٹرنیٹ نمبر میرے فون میں ڈالدیا اور وہ مقام تلاش کرلیا جہاں ہمیں ٹھہرنا تھا۔ میں نے اس کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا اور نیچے اتر ایا۔ جب اپنی بیگم کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ ڈاکٹر زبیدہ اور اس کا بیٹا ہادی محمد غوث وہاں موجود تھے۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور بچوں کو گلے لگالیا تو دل کو طمانیت ملی۔ ان کی فلائیٹ تاخیر کا شکار ہوگئی تھی کیونکہ ان کے جہاز میں ٹکنیکل خرابی کی وجہ سے ایمسٹرڈیم سے انہیں دوسرے جہاز میں سوار ہونا پڑا تھا۔ اس لیے وہ دیر سے پہنچے تھے۔ پھر ان کا ایک بیگ بھی نہیں پہنچا تھا جس کے لیے کلیم داخل کرنے میں بھی وقت لگا تھا۔ ہورے چار گھنٹے ائیرپورٹ پر سرگردان و پریشان وقت گزارنے کے بعد آخرکار ہم وہاں سے نکلے۔  ہم نے ٹیکسی لے لی اور ایک گھنٹے کے سفر کے بعد اپنی منزل بمقام اوچیلار پہنچ گئے تو یہاں رات کا ایک بج چکا تھا۔ مکان کی مالکن ہمارے انتظار میں تھی جو انگریزی سے اتنے ہی نابلد تھی جتنا ہم ترکی سے ناواقف تھے۔ خاتون کافی خوش شکل اور مہذب تھی۔ جب میں نے واش روم کا پوچھا تو وہ بتا نہ سکی تو فلم رضیہ سلطانہ کے ایک گیت کا مصرعہ یاد آیا اور میں نے برجستہ کہہ ڈالا ، "زبان یار من ترکی و من ترکی نہ می دانم" یہ بھی مقام شکر تھا کہ وہ فارسی سے بھی نابلد تھی اوراپنی بیگم تکان کی وجہ سے توجہ نہیں دے پائی  ورنہ شاید میری شامت آجاتی۔  مکان دیکھ کر دل خوش ہوا۔ دو بیڈ رومز، باورچی خانہ اور ایک کافی کشادہ نشستگاہ اور آرامدہ ڈرائینگ روم  پر مشتمل صاف ستھرا مکان تھا جس میں ضروت کی ہر چیز موجود تھی۔ اب صرف  بھوک مٹانے کا مسلہ رہ گیا تھا۔ باہر بازار کھلا تھا۔ صاحب کریم  تھوڑی دیر میں کچھ ترکی خوردونوش لے کر آیا جو اگرچہ اپنی پسند کی نہ تھی تاہم بھوک کا مسلہ حل ہوگیا۔


Comments

  1. Dear sir bo sheali bo maza arer awa tan he xhaghen kosi giruo ghona mat sarstai,,, umeed koman mazeed ta sheali khiyalatan or maghlumat sar ispa mehzuz kos,, wa he tarikhi xhaghan naqshan ispa sum share kos,,, ALLAH pak pesa safaro nek korar wa khairo sora sheali kosi gior,,

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی