مرغی اور انڈے

ہمارے کئی ایک سیاسی اور ادبی افلاطون  ہمارے وزیراعظم عمران خان کو اڑے ہاتھوں  لے رہے کہ اس نے مرغی اور انڈوں کے ذریعے ملکی معیشت کو سہارا دینے کی بات کی ہے۔ آج کل یہ سوشل میڈیا کا کھٹا میٹھا موضوع ہے۔ دوسری طرف خان صاحب اور ان کی ٹیم غیر ملکی بلینر کے حوالے سے اپنی تجویز کا دفاع شد و مد کے ساتھ کر رہے ہیں۔
 کراچی، لاہور ، پنڈی اسلام اباد، کےباسی مرغی اور انڈے کی دیہاتی زندگی میں اہمیت کو کیا جانیں۔ انہوں تو زندگی کا آغاز بازاری خوردو نوش سے کیا ہے اور زندگی بھر بازاری اجناس کے محتاج رہیں گے۔ ہمیں افسوس ان لوگوں پر ہوتا ہے جنہوں نے دیہاتی زرعی معاشرے میں آنکھیں کھولیں، پلے اور بڑے ہوئے۔ اس وقت وہ بھی بازار کی غیر صحت مند اور غیر معیاری خوراک پر گزارہ کر رہے ہیں اور خان صاحب پر طنز کے نشتر چلا رہے ہیں۔۔
ہم جیسے دور افتادہ  دیہی علاقوں کے باشندوں سے پوچھیں کہ تازہ دیہی خوراک کی کیا اہمیت یے؟ اس کی خوشبو کیسی ہوتی اور اسکا ذائقہ کیسا ہوتا ہے؟  ہم سے یہ بھی پوچھیں کہ مرغی جیسی حقیر پالتو پرندے کی ہماری قدیم دیہاتی  زندگی میں کیا اہمیت تھی؟ اس قسم کا سوال میری ہمعمر کسی ماں  سے پوچھیں تو وہ مجھ سے بھی بہتر انداز میں بتا سکتی ہے کہ انکی جوانی میں دیسی  مرغی اور انڈے کی کیا اہمیت تھی؟ قدیم زمانے کی معیشت میں ان مقامی مرغبانی کا کیا کردار تھا؟
یہاں میں اپنے بچپن اور جوانی کے دور کی ایک جھلک دوستوں کو دکھانا چاہوں گا۔
گاوں کے غریب ترین آدمی کے گھر میں کم از کم پانج چھ مرغیاں ہوا کرتیں تھیں ان کا ڈربہ کھوار ختان(کھو لوگوں کا روایتی گھر) کے اندر دروازے کے بالمقابل نخ یعنی خوبگاہ کے نیچے ہوا کرتا۔ یہ مرغیاں سال کے کم و بیش نو مہینے مسلسل انڈے دیا کرتیں۔یوں ایک غریب آدمی کے گھر میں بھی ہمیشہ انڈے کا چھوٹا موٹا ذخیرہ موجود رہتا تھا۔ جن سے مختلف قسم کی خوراک تیار کرکے خود بھی کھاتے اور مہمانوں کو بھی کھلاتے تھے۔ یاد ریے کہ گھر کی سربراہ خاتون مہمانوں کے لیے ہر صورت میں اپنے پاس انڈوں کا ذخیرہ محفوظ رکھا کرتی تھی۔کیونکہ کھو سوسائیٹی میں مہمان نوازی کی  روایت قابل قدر رہی ہے۔سردیوں میں عام طور پر ہر گھر میں گوشت کا تھوڑا بہت سٹاک ہوا کرتا تھا البتہ گرمیوں میں اپنے اور مہمانوں کے لیے گوشت کا واحد ذریعہ پالتو مرغی تھی۔ موسم بہار کےاوائل میں وہی چھہ مرغیوں کی مالکن کم از کم تین مرغیوں کو انڈوں پر بٹھا لیا کرتی جو پینتیس چالیس چوزے پیدا کیا کرتیں اور یہی چوزے جون جولائی میں قابل استعمال ہوا کرتیں۔ گرمیوں میں گوشت کا بڑا ذریعہ یہ چوزے ہوتے تھے۔ کھو بھائی بہنوں کو پتہ ہے کہ نئی فصل کی آمد کی خوشی میں ان ہی چوزوں سے عزیزوں اور پڑوسیوں کی دعوت کی جاتی تھی۔ جسے "اپکہ دک" کیا جاتا یے۔ آج کل بعض لوگ بازاریی مرغیوں کے سہارے یہ رسم ادا کرتے ہیں۔ انڈوں  سے ایوکُن بریان (انڈا بریانی) خاگینہ، ایوکُن ریشوکی (انڈے کا پراٹھا)، انڈا گوشت بریانی کے جوشبودار اور خوشذائقہ طعام کے علاوہ انڈا موٹی روٹی ( ٹیلی /برٹ)اور کلچے وغیرہ کے ساتھ شامل ہوتا تھا تو انہیں لذیذ کیا کرتا۔ ابالے ہوئے انڈے کی اپنی اہمیت تھی۔ دونوں عیدیں میں انڈے لڑانے کا بڑا رواج تھا اور یہ انڈے گاوں کے نوجواں رات کو گھر گھر جاکر گیت اور نغمے گاکر لوگوں سے بطور انعام حاصل کیا کرتے تھے۔ دیسی مرغیوں کے زوال اور پولٹری فارم کی ترقی کے ساتھ نوجوانوں کا یہ ثقافتی ورثہ بھی اپنی موت مرگیا۔
مختصر بات یہ ہے کہ اس زمانے میں لوگ انڈا مرغی خریدنے بازار نہیں جایا کرتے تھے سوائے سرکاری ملازمین کے جو گاوں والوں سے یا گاوں کی دکانوں سے یہ چیزیں خریدتے تھے۔ گاؤں کی مائیں مرغی اور انڈے مسافر ملازمین اور کاروباریوں کو فروخت کرکے اس رقم سے اپنے بچوں کے لیے اسکول کی کتابیں اور کاپیاں خریدا کرتی تھیں۔ آج میری سات گھرانوں پر مشتمل بہت چھوٹی سی بستی لغل آباد بانگ میں روزانہ کم از کم چار درجن انڈے گاوں کی دکانوں سے خرید لائے جاتے ہیں اور گاوں والوں کی کم بیش سولہ ہزار روپے ماہوار صرف انڈوں کی مد میں پنجاب کے کسی صنعتکار کی تجوری میں چلے جاتے اور اتنی ہی رقم مرغیوں کی خریداری کی نظر ہو جاتی ہے۔ اس چھوٹی سی مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے دیہاتیوں کی قلیل کمائی سے کتنی بڑی رقم ماہانہ اور سالانہ شہر کے مالدار کاروباریوں کے پاس چلی جاتی ہوگی؟  وہ بھی دونمبر کی پولٹری پروڈکٹ کی خریداری  کے بدلے میں۔ اگر یہ حالت جاری رہی تو کیا ہمارے دیہات والے معاشی استحکام حاصل کرپائیں گے؟  فارموں کی مرغیاں اور انڈے گاوں گاوں بیچے جائیں اور گاؤں والوں کی اپنی پیداواری  صلاحیت ختم کردی جائے تو ملک کی یہ ساٹھ پینسٹھ فیصد دیہی آبادی کی خودکفالت کا خواب خواب ہی رہے گا۔  بلکہ دیہات مذید معاشی تنزل کی طرف دھکیلے جائیں گے۔

۔   گاؤں میں ایک بوڑھی عورت بھی بآسانی  چھ سات مرغیاں پال سکتی ہے اور نسل کشی کرسکتی ہے اور اپنے  گھر کی معاشی اسودگی میں مددگار بن سکتی ہے۔ بدقسمتی سے دیہات والے اپنی روایتی دستکاری یعنی مقامی قالین بافی، کارپٹ سازی، اونی پٹی سازی، بنیان سازی وغیرہ قسم کی دستکاری چھوڑ چکے ہیں۔اس میں بڑا کردار خواتین کا تھا۔ اب یہ خواتین مرغی بھی نہ پال لیں تو وہ کس طرح پروڈکٹیو رہیں گی۔ ویسے چائیلڈ پروڈکشن بھی پہلے کے مقابلے میں بہت کم رہ گئی ہے۔

اگر موجودہ حکومت صرف اور صرف پولٹری  کی خرید میں دیہاتیوں کی جیبوں سے ڈرین ہونےوالی رقم ہی ان کےلیے بچانے  کی منصوبہ بندی اس قسم کی چھوٹی گھریلو پیداوار کی ترقی کے ذریعے کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ رورل پاپولیشن کی خود انحصاری کی طرف بہت بڑا قدم ہوگا۔

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ