کیا ہم غریب ہیں؟

  ہم غریب ہیں والا یہ جملہ ہم لوگوں کا تکیہ
 کلام بن گیا ہے۔ غربت مکاؤ پروگرام سابقہ حکومتوں نے بھی چلائیں البتہ حکومت کے کسی اقدام سے پہلے ہزہائی نس پرنس کریم آغا خان نے گلگت بلتستان اور چترال میں غربت کم کرنے کی طرف پہلا آہم قدم اٹھایا تھا۔ انہوں نے آغاخان رورل سپورٹ پروگرام پاکستان کا آغاز 1982-83 میں کیا جو آج تک چل رہا ہے۔  دیہی ترقیات کے اس نمونے کو سرکارنے بھی اپنایا اور ہمارے سابق صوبہ سرحد ( پختونخوا) میں سرحد رورل سپورٹ پروگرام کا اجرا کیا۔ رفتہ رفتہ سارے ملک میں اسی ماڈل کے پروگرامز چل پڑے۔ برصغیر  پاک ہند کی  لجینڈری شخصیت شعیب سلطان صاحب نے اس کی آبیاری کی اور آج پاکستان میں رورل سپورٹ پروگرام نٹ ورک یعنی این آر ایس پی این کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ اے کے آر ایس پی نے دیہی ترقی کا جو آئیڈیا دیا وہ مقامی وسائل، افرادی قوت اور بچت  کے تصور پر انحصار کرتے ہوئے اشتراک عمل کے ذریعے اپنے مسائل کا حل تلاشنا اور خود انحصاری کی طرف قدم بڑھانا تھا۔
  اس پروگرام سے اگر ہم لوگ پوری طرح مستفید ہوئے ہوتے تو آج شمالی علاقے اور چترال پورے پاکستان میں معاشی ترقی کے  لحاذ سے ٹاپ پر ہوتے۔ ہماری مجموعی جہالت اور نااہلی نے ہمیں اس پروگرام سے کماحقہ فائدہ اٹھانے نہیں دیا۔ اس کے باوجود ہم نے بہت ترقی کی ہے۔ آج چترال کی دور دراز وادیوں میں رابط سڑکیں، پلیں، پرانی آبپاشی کہ نہروں کی مرمت، شجرکاری سے لے کر پالتو جانوروں کی نسلکشی تک کوئی شعبہ ایسا نہیں رہا جس میں سے کے آر ایس پی نے مقامی آبادی  کی مدد اور رہنمائی نہیں کی ہو۔
آج سے 35-40 سال پہلے کا سوچا جائے تو ہماری معاشی  حالت غربت کے انتہائی پست درجے پر تھی۔ سماجی، تعلیمی اور صحت کے شعبوں میں بھی ہم بہت قابل رحم حالت میں تھے۔  ایک چھوٹی مثال اس کی یہ ہے کہ اُس زمانے میں عام غریب آدمی کے گھر کے ساتھ غسلخانہ/ بیت الخلا بنانے کا تصور ہی نہیں تھا۔  آج بغیر واش روم کے مکان تعمیر کرنے کا تصور کوئی نہیں۔ اُس وقت دیہی سوسائیٹیزکے ممبران ماہوار بچت کے لیے ایک ایک روپیہ کے محتاج تھے جب کہ آج ایک بوڑھی اماں کی جیب میں بھی سو پانچ سو کا نوٹ موجود رہتا ہے۔ اس وقت عوام کی اکثریت پلاسٹک کی جوتیاں پہنا کرتی تھی تو آج سب کے پاؤں میں چمڑے کی جوتیاں ہیں۔۔ اس زمانے میں اگر ایک آدمی کے پاس فقط دو جوڑے کپڑے ہوتے تھے آج اس آدمی کے پاس سات آٹھ جوڑے ہیں۔ اُس وقت ایک دیہاتی اپنے ایک بچے کی تعلیم کا معمولی خرچ نہیں اٹھا سکتا تھا تو آج وہی آدمی اپنے چار پانج بچوں کو تعلیمم دلا رہا ہے۔ جس کے پاس اُس وقت کچی چھت کا چھوٹا گھر تھا یاجھونپڑی تھی آج اس کے پاس کم از کم ٹین کی چادروں کی چھت کا بڑا سا مکان ہے۔ گھر کےافراد کے لیے الگ الگ کمرے بن چکے ہیں جبکہ اُس زمانے میں بہت سارے افراد ایک کمرے میں سوتے تھے۔اس زمانے میں گاؤں گاؤں بھکاری ہوتے تھے تو آج ایک بھی نہیں ملے گا۔الغرض زندگی کے ہر شعبے میں ہماری حالت مکمل بدل چکی ہے لیکن جو چیز نہیں بدلی یے وہ ہماری سوچ ہے۔ ہماری م سوچ آج بھی وہی پرانی اور غریب ہے۔ جب تک ہماری سوچ نہیں بدلتی ہماری ترقی کی رفتار سست ہی رہے گی۔ آج اگر آپ کسی آدمی سے کہدیں کہ بچے/ بچی کی فیس ادا کیوں نہیں کرتے؟ تو کہے گا۔ جناب میں غریب ہوں۔ اگر اسے یوٹیلٹی بل ادا کرنے کو کہوگے تو وہ اپنی غربت کا رونا روئے گا۔
حال ہی میں عوام کی اپنی یوٹیلیٹی کمپنی یادگار یوٹیلیٹی کپنی (پبلک لمٹیڈ) یارخون اپر چترال نے اپنے صارفین پر سو روپے لائین رینٹ لگا دیا تاکہ اپنے منی ہائیڈروپاور پروجیکٹ کو مالی استحکام دے سکے۔ صارفین نے شور شرابہ کردیا کہ ہم غریب لوگ ہیں یہ سو روپے کہاں سے لائیں گے؟ انہی دنوں ووخک قصابوں نے پامیری زوغ یعنی پامیری یاک کی گاؤں گاوں قصابی شروع کردی تو پتہ لگایا کہ صرف تین دنوں کے اندر کوئی پندرہ سو کلوگرام یعنی ڈیڑھ ٹن گوشت چار سو روپے فی کلو کے حساب سے پانج چھوٹے موٹے گاؤنوں یعنی پاور، اوڅھوہون، پترانگاز، لغل آباد اور بانگ میں فروخت ہوچکا تھا۔ سو روپے لائین رینٹ پر چیخ و پکار کرنے والے "غریبوں" نے تین دن کے اندر اندر چھ لاکھ روپے عیاشی پر اڑاچکے تھے۔ کیا ہم غریب ہیں ؟؟
ایک اندازے کے مطابق وادئ یارخون کی کم ووبیش  پچیس ہزار نفوس کی آبادی ماہوار کم از کم ڈھائی میلن یعنی پچیس لاکھ روپے درآمد شدہ پولٹری پروڈکٹ پر خرچ کر رہی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ غربت ختم ہوگئی ہے البتہ لوگوں  میں بچت  کی عادت ڈالنے میں ہم ناکام رہے ہیں اور عوام کی بڑی تعداد اپنی اولاد کےمستقبل کے بارے میں بصیرت نہیں رکھتی ہے۔
   

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ