گویم مشکل وگر نہ گویم مشکل

بعض دفعہ سچ بولنے والا بندہ بھی چشم پوشی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مصلحتوں کا شکارہوجاتا ہے۔ مجھ جیسے ہزاروں لوگ ہیں جو وہ محسوس کرتے ہیں یا اپنی دو آنکھوں سے مشاہدہ کرتےہیں لیکن اظہار  سے گریزاں نظر  آتے ہیں۔  کیونکہ سچ بیانی تلخ ہوتی ہے۔ دوست رشتے دار وغیرہ اخفا ہوتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنی غلطی تسلیم کرنے کی روایت نہیں رکھتے اور اگر کوئی دوسرا آدمی نشاندہی کرے تو دشمنی پر اتر آتے ہیں۔

عوام میں سمجھ بوجھ رکھنے والے شہریوں کا حق بنتا ہے کہ وہ آپنے منتخب نمائیندوں اور سرکاری خزانے سے تنخواہ پانے والے ملازمین کی کار کردگی پر نظر رکھیں اور کہیں کمی خامی نظر آجائے تو سوال اٹھائیں، تنقید کریں اور اصلاح کا مطالبہ کریں۔ ان کا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ اچھی خدمات انجام دینے والوں کے کام کو سراہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ملکی کاروبار درست سمت نہیں چل سکتا۔  پچھلے سال نومبر کے مہینے جب مجھے تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال بونی دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا تو ہسپتال کی چار دیواری اور رہائشی عمارتوں کی بدترین صورت حال دیکھ کر انتہاٴی افسوس ہوا تھا۔ 2015 کے زلزلے کے نتیجے میں ہسپتال کی چار دیواری کا زیادہ حصہ زمین بوس ہو چکا تھا اور ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل سٹاف کی رہائشگاہیں ناقابل استعمال ہوگئی تھیں۔ ڈھائی سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ان کی مرمت نہیں ہوئی تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ ہسپتال کو کٹیگری  سی کا درجہ دینے کے نتیجے میں  عمارت کے اکسٹنشن کے نام پر ٹھیکے داروں نے کھدائی سے نکالی گئی مٹی اور پتھر کا ملبہ مریضوں کے وارڈوں اور ڈاکٹروں کی خستہ حال رہائشی عمارتوں کی دیواروں کے ساتھ جمع کرکے انہیں نہ صرف غیر صحتمند  اوربےپردہ بنادیا تھا بلکہ انتہائی غیر محفوظ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ تعجب کا مقام تھا کہ بونی کے باشعور سماجی لیڈرشپ نے بھی اس بارے میں خاموشی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ماضی میں اہل بونی کو یہ اعزازاحاصل رہارہے کہ وہ سب ڈویژن مستوج کی عوام کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔ آج یہ حال تھا کہ اپنے قصبے کے اندر واحد سرکاری ہسپتال اور سڑکوں کی بدترین حالات دیکھ کر بھی خاموش  تھے۔ شاید آواز اٹھا اٹھا کر اور مطالبہ کر کر کے تھک گئَے تھے۔  پورے سب ڈویژن مستوج کے لیے یہ واحد سرکاری ہسپتال ہے جہاں غریب مریضوں کیلیے تھوڑی بہت طبی سہولیات اور ڈاکٹرز موجود۔  اپر چترال تین بڑی بڑی وادیوں یعنی وادی مستوج جو بیار کے نام سے جانا جاتا ہے، وادی تورکھو اور وادی موڑکھو۔  یہ سابق سب ڈویژن کی سب تحصیلیں بھی ہیں۔  ساریاستی دور کے ضلع مستوج کی تحصیلیں تھیں۔ان میں مستوج کی لمبائی کم از کم دو سو کلومیٹر، تورکھو  کی  70کلومیٹر اور موڑکھو 120 کلومیٹر لمبی ہے  ان کی آخری آبادی سب سے زیادہ مشکلات سے دوچارہے ۔ انہیں بیمار کو لے کر سینکڑوں میل کا سفر    پُرخطر راستوں سےکرنا پڑتا ہے۔ وادی مستوج کی آخری آبادی لشکر گاز بروغل میں  ہے۔ وہاں سے بونی کا فاصلہ کم و بیش 150 کلومیٹر ہے اور راستہ انتہائی دشوار گزار اور کچا ہے۔اس لیے  بونی کے بسرکاری ہسپتال کو اس معیار تک لایا جاٴے کہ یہاں پہنچنے والا مریض کی جان بچانا ممکن ہوسکے۔یہاں کام کرنے والے ڈاکٹروں کو بھی صرف اور صرف اپنے پیشے کے تقدس کو مد نظر رکھتے ہوئے  اور مریضوں کی حالت زار پر رحم کھاتے ہوئے رضاکارانہ جذبے کے تحت اپنے فرائیض انجام دیں۔ ابھی تک ڈاکٹروں کے پیشہ ورانہ فرائض سے متعلق کوئی شکایت سننے میں نہیں آئی ہے۔ البتہ عمارت کی شکستہ حالت ہم سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔
یہ بات بھی قابل افسوس ہے کہ 2008 سے لے کر 2018 تک بونی سے ہی ہماری صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوتے رہے تھے اور جنہوں نے ان بنیادی مقامی مسائل کے حل کرنے میں کوئی  رول ادا نہیں کیا۔ جب ہسپتال کے ایم ایس سے اس بابت استفسار کیا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ  اس نے ٹھیکے دار کو کئی بار سمجھایا کہ یا تو ملبہ ہٹالو یا ڈاکٹروں کی رہائشگاہوں کی چار دیواریوں کو محفوظ اور باپردہ بنانے کے لیے کوئی انتظام کریں لیکن وہ ٹال رہا ہے۔ ایم ایس انتظامی غلطی یہ تھی کہ اس نے شروع میں ٹھیکے دار کو منع کرتے کہ وہ ہسپتال کی موجودہ عمارت کو نقصان نہ پہنچائے یا پھر اس بارے میں سب ڈویژنل انتظامیہ کو آگاہ کرتے تو یہ نوبت نہ آتی۔
پھر راقم الحروف نے  آن لائن اخبار چترال ٹوڈے کے ذریعے اس کی خستہ حالت اور ٹھیکے دار اور سی اینڈ ڈبلیو محکمےکی ھٹ دھرمی کو کئی بار ہائی لائیٹ کیا۔ لیکن افسوس کوئی پرسش نہیں ہوئی۔  اس دوران متعلقہ ٹھیکے دار نے لیڈی ڈاکٹر کی رہائشگاہ کو مزید نقصان پہنچایا۔ یوں ٹھیکے دار نے نہ صرف ہسپتال کی موجودہ عمارت کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ مکینوں کی سکیوریٹی کو بھی داو پہ لگادیا۔ میں  ڈائریکٹ متعلقہ ٹھیکے دار سے ملا تو وہ  بدتمیزی پر اتر آیا۔ مجھے بذات خود اسسٹنٹ کمشنر مستوج ایٹ بونی کے پاس جانا پڑا۔ اے سی تورکھو گئے ہوئے تھے۔ البتہ ان کے پی اے مسٹر شمشیر نے ہم سے تحریری درخواست لے لی اور اے سی کے واپس پہنچتے ہی انہیں پیش کرنے کا وعدہ کیا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اگر پہلے اے سی صاحب  کو چھٹی لکھی جاتی تو یہ مسلہ کبھی کا حل ہوا ہوتا۔ اس کے کہنے کے عین مطابق اسسٹنٹ کمشنر مستوج مسٹرعنایت تورکھو سے واپس آتے ہی شام کے  دھندلکے میں متاثرہ رہائشگاہ کا معائینہ کیا اور فوری اقدام کا وعدہ بھی کیا اور اسے پورا بھی کیا۔ ہم ایسے افسر کو دونوں ہاتھوں سلام  پیش کرتے ہیں۔ جو اپنا فرض نبھانے میں اتنی تیزی کا مظاہرہ کیا اور فوری ایکشن لے کر وقتی طور پر لیڈی ڈاکٹر کی رہائشگاہ کے لیے پردے کا انتظام کروایا۔


 میرا تجربہ میرا عقیدہ بن گیا ہے کہ کسی بھی ادارے کی مجموعی کارکردگی، اس کی کامیابی اور ناکامی  میں اس ادارے کے سربراہ کا سب سے بڑا اور آہم کردارہوتا ہے۔  کسی سکول،یا کالج کی تعلیمی ترقی، اس کی عمارت ، فرنیچر، لائبریری اور لبارٹریلی اور دوسری پراپرٹی کی بہتر دیکھ بال وہی ہیڈماسٹر یا پرنسپل درست طور پر کرسکتا ہے جن کو تدریسی پیشے اور انتظام و انصرام سے متعلق نہ صرف تربیت حاصل ہو بلکہ تجربہ اور اصلاحیت  بھی رکھتا ہو۔ ایک آدمی کامیاب استاد ہونے کے ساتھ ساتھ کامیاب منتظم بھی ہو تب وہ اپنے ادارے کو اس کے قیام کے مقاصد سے ہمکنار کرسکتا ہے۔ ورنہ نہیں۔ اسی طرح ایک آدمی بہترین معالج بن سکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ بہترین منتظم بھی ہو۔ اگر کوئی ڈاکٹر اپنے پیشہ ورانہ قابلیت کے ساتھ ساتھ انتظامی صلاحیت بھی  رکھتا ہو تب وہ کسی ہسپتال کا کامیاب میڈیکل سپرنٹینڈنٹ ثابت ہوسکتا ہے۔ ہمارے سماجی خدمات کے اداروں کی ناکامی محض اس وجہ بھی ہے کہ ان کے سربراہ پروفیشنل اور انتظامی صلاحیتوں میں سے کسی ایک میں مطلوبہ  صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ محض سنیارٹی کی بنیاد پر کسی ادارے کی سربراہی سونپ دی جاتی ہے  اور وہ افیسر ان اداروں کو چلانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔
لہذا  کسی افیسرکو سربراہ ادارہ بناتے وقت اس کی پرفیشنل قابلیت کے ساتھ اسکی انتظامی صلاحیتوں کو  بطور خاص مدنظر رکھنا از بس ضروری ہے۔ تاکہ متعلقہ قومی ادارہ کامیاب چل سکے۔

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ