اوہرکن گولو اژدار

کافر پشاڑ سے تعلق رکھنے والی یہ تیسری کہانی میں سنانے جارہا ہوں۔ یہ بات میراگرام اور اوہرکن گاؤں کے بڑے بوڑھوں سے سنی ہے کہ کافر پشار کے زمانے ہی میں اوہرکن گھاٹی کے اندر ایک ایسا اژدہا پیدا ہوا جو ندی اوہرکن کے دہانے نظر آنے والےکسی بھی جانور کو اپنی سانس کے ذریعے کھنچ لیتا اور نگل لیتا تھا۔ اس لیے یہاں کا کوئی باشندہ اوہرکن کے دہانے کیطرف جانے کاسوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ   
اژدها اتنا بڑا تھا کہ وہ ایک دفعہ ہل جوتتےہوئے دو بیلوں کو ہل، جوا اور ہل چلانے والے آدمی سمیت ہڑپ کرلیا تھا۔ اس بلا سے چھٹکارا پانے کی کوئی ترکیب نہیں سوجھ رہی تھی۔ بڑی سوچ بچار کے بعد ایک دن کافر پشاڑ نے اپنے خویش و اقارب کو اپنے گھر واقع اوہرکن بلایا اور ان کو بتایا کہ اس نے اس اژدہے کو مارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نے اہل محفل کو بتایا،" میں اس درندے کو قتل کرونگا لیکن میرا اپنا بچ جانا بھی بہت مشکل ہے۔   تاہم دوسرے لوگ اس سے نجات پاسکیں گے" اس نے اپنی سٹریٹجی بتاتے ہوئے کہا، " میں کل اوہرکن گول کے دہانے ہل جوتنے جاوں گا۔ اژ دھا مجھے بیکونبکے ساتھ نگل لے گا۔ میں اس درندے کے پیٹ میں جاتے ہی چھریوں سے اس کے اندر کے ضروری اعضا کاٹنا شروع کردوں گا۔ جب اژدھا گر جائے تب آپ لوگ جلدی پہنچ کر اس کا پیٹ چیر کر مجھے نکالنے کی کوشش کریں۔ قسمت نےاگر ساتھ دیا تو میں زندہ بچ بھی سکتا ہوں"   اپنے عزیزوں کو ہدایت دینےکے بعد اگلے روز کافرپشاڑ اپنے بیلوں اور سامان کے ساتھ اورہرکن گول کے دھانے جاکر بیلوں کو کھیت میں جوت دیا اور ہل چلانے لگا۔ اس نے دو محمودی (خنجر نما)چھریوں کو اپنی کمر بند میں اڑس لیا۔ گاوں کے لوگ دور سے یہ نظارہ کرنے لگے۔ اتنے میں اژدہا کی سانس لینے گڑگڑاہٹ سنائی دی اور اس کے ساتھ ہی کافرپشاڑ اور اس کے بیل ہوا میں اڑتے ہوئے گھاٹی کے اندر منظر سے غائب ہوگئے۔ ان لوگوں نے اس بلا کا پیچھا کیا یہاں تک وہ گر گیا۔ اژدھے کے گرنے کے بعد بھی کوئی اس کے قریب جانے کی ہمت نہ       کرسکا۔ جب  انہوں نےکافی تاخیرکے بعد آخر کار  اژ دهے کا پیٹ چیرا تو دیکھا کہ کافر پشاڑ نیم مردہ ہوچکا تھا۔ جب اسے گھر پہنچایا گیا تو وہ جانبر نہ ہوسکا۔ یوں جنات اور چڑیلوں  کادشمن کافر پشاڑ آخر اپنی جان کی قربانی دے کر اس خونخوار درندے سے لوگوں کی جانیں بچالیں۔ کہتے ہیں کہ اس ا ژدھےکی ران کی ہڈی ماضی قریب تک اوہرکن گول کے اندر موجود تھی۔ وہ اتنی موٹی تھی کہ بکریاں اس کے اندر جاکر بچے جنا کرتی تھیں۔یہ بات  ݰݰی میراگرام کے علی دوست جومیرے ماموں میراثت بیگ کے رضاعی بھائی ہے اپنی زبانی مجھے بتائی تھی۔

Comments

  1. Zabardast information,, phukro kiagh ispa kara oshoi,, magr hanesay kafi tafseela retam,,

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ