گورو پنجی

کھوار زبان میں "گور" چڑیل کو اور " پنجی" برجی کو کہتے ہیں۔ آج کا موضوع "گورو پنجی" یعنی چڑیل کی برجی ہے۔ جب میں چھوٹا تھا تو اپنے گھر چارغیری (لغل اباد) سے پاور گاؤں جاتے ہوئے پترانگاز سے گزر کر جب اوڅھو ہون کی حد بندی میں داخل ہونے کےقریب ہوتا جاتا تو میری نظریں راہ عام کے کنارے میری بائیں طرف پتھروں کے ایک چھوٹےڈھیر کی طرف اٹھا کرتی تھیں اور اس کے اردگرد چڑیل کی موجودگی کا خوف مجھ پر طاری ہوا کرتا تھا کیونکہ اس کا نام "گورو پنجی" تھا۔ چونکہ چڑیل کی یہ "یادگار" ایک بیابان میں تھی۔ اردگرد آبادی نہیں تھی۔ اوڅھوہون گاوں آباد نہیں تھا۔ اس مقام سےکوئی سو گز آگے میری ماں کے رشتے کے ماموں گلاب مراد اور لنگر مراد کے مکانات تھے اور اس سے آگےآگاوں کے شمال میں دینار خان کا مکان تھا جس میں وہ مستقل رہائش پذیر تھا جب کہ میری ماں کے ماموں صاحباں کچھ عرصے کے لیے اپنے ان نوآباد مکانوں میں رہائش رکھتے تھے۔ ان کے مستقل گھر پاور میں تھے۔ یارخون کی عوامی گزرگاہ برلب دریا ئے یارخون تھی۔ اس لیے  پترانگاز سے آگے ڈیڑھ دو کلومٹر کا بیابان والا راستہ ویسے بھی ڈراونا تھا۔ جب چڑیل کی یہ برجی بھی یہیں تھی تو اس کا مجھ جیسے کم ہمت بچے کے لیے انتہائی خوناک ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔ گورو پنجی سے گزرنے کے بعد بھی نہیں پیچھے مڑ مڑ کے دیکھنا میری عادت سی ہوگئی تھی۔ اس طرح واپسی پر بھی دل کی دھڑکنیں خوف کے مارے بہت تیز ہوا کرتی تھیں۔ شکر ہے کہ مجھے کبھی وہ چڑیل نظر نہیں آئی ورنہ میں یہ کہانی سنانے کے لیے زندگی نہ نہ رہتا۔
کہتے ہیں کہ کوئی چار ساڑھے چار سو سال پہلے یہاں ایک چڑیل رہتی تھی۔ وہ اکیلے مسافر کے انتظار میں یہاں بیٹھی رہتی۔ جب کوئی پیدل      مسافر اکیلا ملتا تو یہ چڑیل بھی اس کی ہمراہ ہوکر روانہ ہوجایا کرتی اور آگے جاکر موقع ملتے ہی اس آدمی کا خون چوس لیا کرتی۔ کوئی گڑسوار ملتا تو اس کے پیچھے بیٹھ جاتی اور اسے باتوں میں لگاکر اس کی رگوں میں اپنے دانت گاڑ دیا کرتی۔ اس لیے علاقے کے واقف لوگ اکیلا اس راستے پر سفر نہیں کرسکتے تھے اور جن کو اس کا علم نہیں ہوتا تھا وہ اس چڑیل کا شکار ہوجایا کرتے۔ یہ زمانہ وسطی یارخون میں زوندرے قوم کے جد امجد کافر پشاڑ کا تھا جن کا گھر اورکن میں تھا۔ اس کا چڑیلوں کو مارنے کے قصے مشہور تھے۔ اس نے اس چڑیل کو بھی مارنے کا فیصلہ کیا۔ مناسب وقت کا انتظار کرتا رہا۔ جب اس کی اچھی اور انتہائی تیز رفتار گھوڑی نے بچہ جنا تو اس نے اپنے منصوبے پر عمل درآمد کافیصلہ کرلیا۔
ایک صبح اس نے اپنی اس گھوڑی پر زین کس دیا اور اپنی بیوی کو ہدایت کی کہ جب کتے بھونکنے لگیں تو ان کی زنجیریں کھولدیں۔ اس کے دو  خونخوار شکاری کتے " کارین باریکی" (سننے میں تیز) اور "غیچھین توکھونو" (تیز نظر)  نام کے ہر وقت زنجیروں میں ہوتے تھے۔ کافر پشاڑ نے گھوڑی کا بچہ پیچھے چھوڑ جر گھوڑی پر سوار ہوا اور دریا کی مشرق کی طرف سے دیوسیر کی طرف چلا گیا۔ پاور کے سامنے دریا پار کرکے دریا کی مغرب کی طرف اتر کر گھوڑی کی لگام واپس موڑ دی۔ جب گوروپنجی پہنچا تو چڑیل بھی سچھل کر اس کے پیچھے بیٹھ گئی۔ اسی لمحے کافر پشاڑ نے گھوڑی کی لگام ڈھیلی کردی اور اسے ایڑ لگادی اور رسی کا حلقہ بناکر چڑیل کو اپنی پیٹ کے ساتھ باندھ لیا۔ گھوڑی اپنے بچے کے لیے ہوا بن گئی۔ ان غیر متوقع حالات نے چڑیل کو اپنا کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ کافر پشاڑ نے اپنے کتوں کو پکارا تو چڑیل سمجھ گئی کہ اب اس کا بچنا محال ہے۔ اس لیے کافر پشاڑ کی منت سماجت کرنے لگی کہ وہ اسے چھوڑ دے۔ وہ یہ علاقہ چھوڑ کر چلی جائے گی۔ کافر پشاڑ نے اس کی منت ان سنی کردی۔ پھر اس نے کہا کہ وہ اسے خزانہ دکھائے گی۔ کافر پشاڑ نے یہ پیشکش بھی مسترد کردی۔ کہتے ہیں چڑیل نے  کافر پشاڑ کو کئی ایک قسم کے لالچ دلانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔ جب کافر پشاڑ کی گھوڑی لشٹو پونگ پہنچی تو کافر پشاڑ کے کتے بھی ان سے     آملے۔ کافر پشاڑ  نے چڑیل کو نیچے پھینک دیا۔ اس وقت چڑیل نے آخری بار کافر پشاڑ سے پوچھا " یہ تو بتاو تمہارا نام کیا ہے؟" اس نے جواب دیا، " آوا اواتان" یعنی میں میں خود ۔ کتوں نے چڑیل کو چیرپھاڑ کر حلاک کردیا۔
 کافر پشاڑ کو معلوم تھا کہ چڑیل کا نر ساتھی بھی ہوتا ہے وہ اسے ڈھونڈنے آئے گا۔ اس لیے وہ راتوں کو اس جگہ کی نگرانی کرنے لگا جہاں چڑیل ماری جاچکی تھی۔ کہتے پیں کہ ایک رات چڑیل کا مرد یعنی جن چڑیل کی بو باس سونگھ سونگھ کر اس جگہ پہنچ گیا جہاں وہ ماری گئی تھی اور بڑی تلاش کے بعد اسے چڑیل کی چھنگلی مل گئی۔ اس جن نے اس چھنگلی سے پوچھا،  " کس نے تمہیں مارا؟" انگلی نے کہا ،" اوا اواتان" یعنی میں خود۔ تین دفعہ اس نےیہ سوال دھرایا۔ تینوں مرتبہ چڑیل کی انگلی سے آواز آئی " میاوا اواتان" تب اس جن کو غصہ آیا اور اس نے وہ چھنگلی اپنےمنہ میں ڈال کر کہا ، "کی تو تان توتان" (اگرتم خود اپنی موت کی ذمے دار ہو تو میں کیا کرسکتا ہوں) یہ کہتے ہوئے وہ چلا گیا۔
 

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ