آئرلینڈ یاترا۔۔۔5

ننھا سیاح
ہم جب ستر سال کی عمر میں جہاں گردی کا مزہ لے رہے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کا شکریہ بھی ادا کرتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی وساطت سے ہمیں اپنی تخلیق کی وسیع دنیا دیکھنے کا موقع دیا۔ تو ایک تین سال کا بچہ اپنی عمر کے اٹھارھواں مہینے سے دنیا دیکھنے کا آغاز کرے اور تیسری سالگرہ تک درجنوں ممالک کی سیر کرے تو وہ ہوش سنبھالتے ہی  ضرور شکر خداوندی ادا کرے گا۔ اس کچی عمر میں گو کہ ہمارا خیال ہوتا ہےکہ وہ جو دیکھ، سن اور محسوس کر رہا ہے اسےیاد بھی رکھ پائے گا کہ نہیں؟ ہم اپنے بچپن کے واقعات کا جب سوچتے ہیں تو ہمیں بعض واقعات اس طرح یاد آتے ہیں جیسا کہ کل کا واقعہ ہو۔ ہمارا زمانہ تو ایک طرح سے تاریکی کا دور تھا۔ آج کی طرح حفظان صحت کے اصولوں پر عمل تھا اور نہ پری سکول ذہنی تربیت کا کوئی تصور تھا۔  جسمانی صفائی اور ہائی جین کی حالت نہ ہونے کے برابر تھی۔ پھر بھی اگر ہمیں ڈیڑھ دو سال کی عمر کی یادیں لاشعور میں محفوظ ملتی ہیں تو آج کے بچے ان جدید ترین سہولیات کی موجودگی میں ہم سے کئی گنا زیادہ ذہنی وسعت اور مضبوطی کے حامل ہوں گے۔ اس لیے وہ ہر واقعہ، مشاہدہ اور منظر اپنے قدرتی میموری کارڈ میں محفوظ کریں گے۔ اس لیے ہم اپنے چھوٹے بچوں کی سیر وتفریح کو ان کے علم کے خزانے میں اضافے کا ذریعہ جانیں تو زیادہ مناسب ہوگا۔ 

میرے بہت ہی پیارے اور تیز طرار نواسہ، صاحب کریم خان اور ڈاکٹر زبیدہ سرنگ اسیر کا اکلوتا بچہ، ہادی محمد غوث خان کی پیدائش ایبٹ آباد میں ایوب میڈیکل کمپلکس کی سینئیر گائناکالوجسٹ ڈاکٹر رقیہ صاحبہ کی پرائیویٹ کلینک میں ہوئی تھی جب اس کی ماں مانسہرہ کے ایک چیریٹی ہسپتال میں پریکٹس کر رہی تھی۔ اتفاق دیکھیے کہ ڈاکٹر زبیدہ سرنگ اسیر  کی پیدائش بھی ایبٹ آباد کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں ڈاکٹر نزاکت کی نگرانی میں ہوئی تھی اور اب اس کے بیٹے کا جنم بھی سر زمین ایبٹ میں ہی ہوا۔
مقررہ وقت سے چھ سات ہفتے قبل ایمرجنسی آپریشن کے ذریعے ہادی کی ولادت ہوئی۔ ۔جب دخترم ڈاکٹر زہرہ ولی خان نے اسے کپڑے میں لپیٹ کر ہمیں دکھایا تو میرا دل دھک سے رہ گیا تھا کیونکہ بچے کی جسمانی نشونما نہ ہونے کے برابر تھی۔ ڈیڑھ کلو وزن کا تھا۔ اس کے بچ جانے کی امید تقریبآ صفر تھی۔ دوسری طرف اس کی ماں کی مامتا کی تڑپ سے دل خون ہوتا جا رہا تھا۔ اللہ کے حضور بچے کی سلامتی کی دعاء کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ کیا خوب کہاوت ہے، جسے اللہ رکھے اسے کون چھکے۔ اس کا بچ جانا ایک معجزہ سے کم نہیں تھا اور یہ اللہ پاک کی بہت بڑی عنایت تھی۔ 
سال 2017 ، ماہ جنوری کی 18 تاریخ اور رات کا وقت تھا۔  ایبٹ آباد میں سردی اپنے جوبن پر تھی۔ ڈاکٹر رقیہ کی کلینک میں انکیوبیٹر کا انتظام نہیں تھا۔  اس لیے ڈاکٹر زہرہ ولی خان اسیر نے اسے ایوب میڈیکل کمپلیکس کی نرسری میں لے جاکے داخل کرالیا جہاں وہ خود بھی ریزیڈنسی کر رہی تھی اور خود اس کے ساتھ رات بھر وہاں رہی جبکہ میری چھوٹی بچی ڈاکٹر رئیسہ خان اسیر اور میری بھتیجی انیلہ ظفر،  ڈاکٹر زبیدہ سرنگ اسیر کیساتھ ہسپتال میں رہیں۔ہم گھر واپس آگئے لیکن نیند کوسوں دور رہی۔ خیال بچی اور اس کےنوزائیدہ بچے کی طرف رہا اور دعائیں کرتے رہے۔ برابر فون پر دونوں سے رابطے میں رہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے رات خیر خیریت کے ساتھ گزر گئی۔صبح ہوتے ہی ڈاکٹر زہرہ ولی اسیر کہنے لگی، " بابا میں بے بی کو گھر لا رہی ہوں۔ مجھے تسلی نہیں ہو رہی ہے کہ اس کی یہاں درست نگہداشت ہوگی" میں کچھ کہہ نہیں پایا کیونکہ مجھے ان معاملات کا علم نہیں تھا تاہم بچے کی حالت انتہائی نگہداشت میں رکھنے کی تھی۔ سینئیر ڈاکٹرز اس کی اجازت ہرگز نہ دیتے۔ اس نے خود ہی ڈسچارج کرکے چپ کے سے اسے گھر لے آئی۔گھر پر ہی اس کے لیے نرسری قائم کیا۔  ڈاکٹر رئیسہ خان اسیر نے رات کی ڈیوٹی سنبھال لی۔ نماز فجر سے لے کر دن دو بجے تک اس کی نانی، بیگم اسیر کی نگرانی میں اور دو بجے سے رات دس گیارہ بجے تک ڈاکٹر زہرہ اسیر کے پاس رہنے لگا۔ یوں اسکی  نگہداشت جاری رہی اور بچہ آہستہ آہستہ نشونما پانے لگا۔ اس لیے ہادی کی ابتدائی اور مشکل پرورش میں ڈاکٹر زہرہ والی اسیر، ڈاکٹر رئیسہ خان اسیر اور اس کی نانی کا کردار سب سے بڑا ہے۔ بچہ اتنا دبلا پتلا تھا کہ اسے کپڑے میں لپیٹنے سے پہلے روئی کے گالوں میں لپیٹنا پڑتا تھا۔   ماں کا دودھ بھی نہیں پی پا رہا تھا۔ اس لیے مصنوعی دودھ پر رکھا گیا۔ پھر گھر سے اس کا ماموں پسرم زاہد اللہ خان اپنی بیگم اور بچوں کو لے کر ایبٹ آباد پہنچ گیا اور میری بہو نے اسے اپنے بیٹے ارحم علی خان سرنگ کے دودھ میں شریک کرلیا۔ ایک مہینے تک بیگم زاہد نے اس کی رضاعت کی۔  اس کے بعد زیادہ تر مصنوعی خوراک پر پلنے لگا۔ یوں یہ پری میچور پیدا ہونے والا نحیف و نزار  بچہ ہادی محمد غوث  زندگی کے سفر پر گامزن ہوا۔ آج ماشااللہ تین سال کی عمر کا پوری طرح تندرست و توانا بچہ ہے۔
بچے کا نام رکھتے وقت میں نے اس کے جد امجد محمد غوث کا نام تجویز کیا۔ محمد غوث بن محمد اعظم رضاخیل اپنے زمانے کا نامور تعلیم یافتہ، دانشور اور شاعر شخصیت گزرے ہیں۔ آج تک اس کی اولاد میں کسی نے اس کا نام اپنے بچوں کے لیے منتخب نہیں کیا تھا۔ ڈاکٹر زبیدہ اسیر نے "ہادی" کا اضافہ کیا جو اس کا پسندیدہ نام تھا جب کہ اس کے دادا میر صاحب خان المعروف مغل نے خاندانی سرنیم "خان" بڑھا لیا تو یہ دبلا پتلا چھنگلی جتنے قد کھاٹ کا بچہ ہادی محمد غوث خان کا لمبا اور شاندار نام لے  بیٹھا۔
تین مہینے کی عمر میں اسلام آباد سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد کا پہلا ہوائی سفر کیا۔ اس کے بعد ایبٹ آباد سے بریپ اور لغل آباد یارخون چترال کا سفر گاڑی میں کیا۔  بعد ازاں لغل آباد سے چترال بائی روڈ اور پھر چترال سے کراچی کا ہوائی سفر کیا۔ ڈیڑھ سال کی عمر میں کراچی سے آئرلینڈ کا لمبا ہوائی سفر کیا۔ 
گزشتہ ڈیڑھ سال سے اپنے ماں باپ کے ساتھ آئرلینڈ میں مقیم ہے۔ ایک سال تک یہ لوگ گالوے میں تھے۔ چھہ مہینوں سے ڈبلن میں ہیں۔ آئرش ایکسنٹ کی انگریزی بولتا ہے جو ہماری سمجھ میں کم اور اسے کے والدین کی سمجھ میں پوری طرح  آتی ہے۔ ہم جب اسے ساتھ لے کر باہر نکلتے ہیں تو ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ ہر راہگیر کو ہیلو ہائی کرکے ان کی مسکراہٹ اور پیار بھرا جواب وصولتا رہتا ہے۔ بہت ہی بولڈ اور پراعتماد بچہ ہے۔ اسے یہاں کی گلی کوچوں، ریلوے اسٹیشن اور اسٹاپ اور بازاروں سے پوری طرح واقفیت ہے۔ اسے آئرلینڈ کے ٹرم اسٹاپس کے مشکل آئرش نام یاد ہیں جبکہ میں یاد نہیں کر پا رہا ہوں۔ وہ کسی اسٹاپ پر پہنچتے ہی سکرین دیکھ کر بتا دیتا ہے کہ ریل کتنے منٹ میں آئے گی اور آگے کونسا اسٹاپ ہے؟
ہادی کو یہ تجربہ اس کی سیاحت کی بدولت حاصل ہوا ہے۔ اس نے اپنے ماں باپ کے ساتھ اب تک یورپ کے درجنوں ممالک کی سیر کی ہے۔ فرانس، نیدر لینڈ، جرمنی، سپین، مالٹا، سویڈن، ترکی، آسٹریا، چکوسلواکیہ، ہنگری، اٹلی، سویٹزرلینڈ،  قبرص، یونان اور بلغاریہ کی سیاحت کرچکا ہے۔ اپنی آئیندہ کی زندگی میں وہ ساری دنیا دیکھ پائے گا۔ انشااللہ! اسکی سیاحت کی تصاویر بھی نیچے دی گئی ہیں۔
دادا دادی اور نانا نانی کو قدرتی طور پر اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں سے بے انتہا محبت ہوتی ہے۔ یہ حقیقت وہ لوگ جانتے ہیں جن کو grand parents ہونے کا شرف حاصل ہو۔ البتہ وہ بچے زیادہ قابل توجہ ہوتے ہیں جو پیدائش اور پرورش کے دوران مشکل حالات سے گزرے ہوں۔ اللہ کے فضل و کرم سے میں اور میری بیگم صاحبہ کو دو پوتوں، ایک پوتی، چار نواسوں اور پانج نویسیوں سے اللہ پاک نے نوازا ہے۔ سب کے سب ذہین و فطین اور حسین و جمیل بچے ہیں۔  یہ اللہ پاک کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے۔ الحمدللہ! الحمدللہ! اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔


Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی