آئرلینڈ یاترا۔۔۔7

سفر کی تھکاوٹ سے نجات پانے کے بعد ڈبلن شہر اور اس میں موجود قابل دید تاریخی مقامات کی سیر شروع کی۔ سب سے پہلے ہم  اس کے بازاروں میں گھومے جو ہماری طرح بے ترتیب نہیں ہیں۔ کھلی سڑکوں کے اطراف میں دس بارہ فٹ چوڑی پگڈنڈیاں جہاں آپ کو کوئی ریڑھی بان یا ہاکر نظر نہیں آئے گا۔ کسی دکاندار کا سامان اس پر ناجائز قابض نہیں ملےگا۔ کوئی بھکاری ہاتھ پھیلائے آپ کا راستہ نہیں روکے گا۔ پیدل چلنے والوں کے لیے کسی قسم کی معمولی رکاوٹ بھی نہیں ملے گی۔ جگہہ جگہہ پیدل کراسنگ کے نشانات واضح نظر آئیں گے سامنے سڑک پر لکھا ہوگا کہ look to the left or right اور ساتھ ٹریفک لائٹ کا اشارہ بھی موجود ہوگا جس کی کوئی پیدل آدمی یا گاڑی والا خلاف ورزی نہیں کرےگا۔ اور پھر ایک سیدھ میں قائم تین یا چار منزلہ خوبصورت عمارتیں جو رنگ و روغن اور قدوقامت کے لحاظ سے ایک جیسی ہیں، دعوت نظارہ دیتی رہیں گی۔ انہی عمارتوں کی نچلی منزلوں کے اندر بڑے بڑے اسٹورز ہیں جن کا باہر والا حصہ پورا شیشے کا ہوتا ہے اور جو ہر جنس کے لیے الگ الگ ہیں۔ ان میں داخل ہونے کے بعد ایسا لگتا ہے گویا ایک چھوٹا سا شہر ہو جس کے اندر ایک خوبصورت دنیا آباد ہو۔ ہر شئے کی قیمت اس کے ساتھ کارڈ پر درج ہوتی ہے۔آپ کو ہمارے ملک کی طرح قیمت پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اشیائے خوردونوش سبزی سے لے کر میووں تک ہر چیز پلاسٹک کی تھیلی یا ڈبے میں بند ملےگی اور وہ بھی دھلی ہوئی ہوگی۔ موٹا چنا، لوبیا، چقندر اور اس قسم کی دوسری چیزیں ابلی ہوئی ہوتی ہیں۔ خریدار کو صرف مرچ مصالحہ لگاکر اوین میں گرم کرکے کھانا ہوتا ہے اور بس۔ گوشت بھی کہیں کہیں پکا پکایا ملتا ہے اور وہ بھی مذبوح جانور کا ہر حصہ یعنی ران، پسلی وغیرہ الگ الگ تھیلی میں بند ہوتا ہے تاکہ کسی بھی قسم کی آلودگی سے محفوظ رہے اور خریدار اپنی پسند کا گوشت آسانی سے حاصل کرسکے۔ خریدنے والا اپنی ضرورت کی اشیاء اپنی ٹرالی میں ڈالتا جاتا ہے اور کاؤنٹر پر کلرک کمپیوٹر پر سیکنڈوں میں حساب لگاکر بل اس کو تھما دیتا ہے اور وہ ادائیگی کرکے نکل جاتا ہے۔ ہر کوئی انتہائی اعلے نظم و ضبط کا مظاہرہ  کرتا ہے۔ ہماری طرح دھکم پیل نہیں ہوتی۔ ہر بندہ اپنی باری کا انتظار کرتا ہے اور مجال ہے کہ قطار سے ادھر ادھر ہو۔ یہاں میں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ اگر کوئی بددیانت آدمی کچھ سامان بغیر کاؤنٹر میں دکھائے لے بھی جائے تو بھی کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ ان لوگوں کی اعلے اخلاقی تربیت کا نتیجہ ہے کہ یہاں چوری چکاری کا تصور تک نہیں ہے۔
یہاں کے شہریوں کے مہذبانہ رویہ سے ہم جیسے لوگ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ راستہ چلتے اگر کسی بندے کو آپ راستہ دیں گے تو وہ آپ کو تھینک یو کہے بغیر نہیں گزرے گا اور اسی طرح اگر کسی کی طرف سے آپ کو معمولی سی تکلیف بھی پہنچے یعنی غلطی سے کسی کا ہاتھ آپ کے لباس کو چھو بھی لے تو وہ چار پانج دفعہ معافی مانگے گا۔ اگر آپ آہستہ چل رہے ہوں اور آپ کے پیچھے آدمی کو جلدی بھی ہو تب بھی وہ آپ سے آگے نکلنے کی کوشش نہیں کرے گا جب تک آپ خود انہیں راستہ نہیں دیں گے۔ یہ لوگ عموماً تیز رفتار میں چلنے کی عادت رکھتے ہیں گویا انہیں کہیں پہنچنے کی جلدی ہو۔ در اصل ان کو وقت کی قدر ہے۔ ہم جیسے وقت کو فضول آوارہ گردی میں برباد نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ بڑی سرعت میں ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔آئرش خوش مزاج لوگ بھی ہیں۔ مسکراتے ہوئے ہیلو ہائے کہتے ہوئے گزرتے ہیں۔ موسیقی سے ان کو بے حد لگاؤ ہے۔
 
شہر کے اندر پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے ٹرم اور ڈبل ڈیکر بسیں چلتی ہیں. ان بسوں پر نظر پڑتے ہیں مجھے پشاور شہر سے یونیورسٹی کے درمیان سروس کرنے والی ڈبل ڈیکر بسیں یاد ائیں جوچیونٹی کی رفتار سے چلا کرتی تھیں تاہم طلبہ اور عوام کے لیے سستی ٹرانسپورٹ کا ذریعہ ہوا کرتی تھیں۔ یہ ٹرم اور بسیں ہر پانج دس منٹ میں مقررہ اسٹاپ پر آکر رکتی ہیں۔ مسافروں کے پاس مستقل پری پیڈ کارڈز ہوتے ہیں جنہیں ہر اسٹاپ پر نصب مشین سے مس کرکے کرایہ ادا کروایا جاتا ہے۔ اگر مستقل کارڈ نہ ہو تو بھی ہر اسٹاپ پر مشین موجود ہوتی ہے جس میں آپ پیسہ ڈال کر اپنی منزل کا نام ٹائپ کریں تو ٹکٹ مشین سے  بنو باقی پیسوں کے برآمد ہوتا  ہے اور کمپیٹر شکریہ کے ساتھ بتا دیتا ہے کہ اپنا ٹکٹ اور پیسے کے کیں۔ گاڑی میں پہلے اترنے والوں کو موقع دیا جاتا ہے پھر سوار ہونے والے چڑھ جاتے ہیں۔ ان کے اندر ضعیفوں؛ معمر افراد  اور چھوٹے بچوں اور ان کی ماؤں کے لیے سیٹیں مخصوص ہوتی ہیں۔ ویل چیر استعمال کرنے والوں کےلیے الگ نشستیں مقرر ہیں۔یہ مخصوص نشستیں دوسرے افراد استعمال نہیں کرتے۔ نوجوان سواری معمر لوگوں کے لیے فوراً اپنی نشست پیش کرتے ہیں۔ان گاڑیوں کے اندر سکرین پر ہراسٹاپ کی اطلاع پیشگی ملتی رہتی ہے اور کمپیوٹرائزڈ اعلان بھی ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے ہم جیسے نو وارد لوگوں کے لیے بڑی آسانیاں ہیں۔ گاڑیاں ہارن نہیں بجاتیں۔ بازار میں شور شرابا سنائی نہیں دے گا۔ ٹرم اور بس سروس کے علاؤہ ٹیکسیاں بھی چلتی ہیں۔ جگہہ جگہہ سائیکل سٹینڈ پر قطاروں میں کھڑی سائکلیں نظر آئیں گی جو سائکل چلانے والوں کےلیے کرایے پر دستیاب ہوتی ہیں۔ باقی لوگوں کی زاتی گاڑیوں کے علاؤہ کوئی دوسری چیز سڑک پر نظر نہیں آئے گی۔ اس لیے ٹریفک بے ہنگم نہیں ہے۔اگر آپ سڑک عبور کرنے کے ارادے سے کہیں کھڑے ہوں تو گاڑی والے خودبخود گاڑی روک کر آپ کو گزرنے دیں گے۔  آئرش لوگ مجھے بہت زیادہ مہذب اور ڈسپلنڈ قوم لگے۔ اور ہاں صحت مند، سرو قد اور گل رخ بھی ہیں۔ انگریزوں کی طرح زرد چہرہ نہیں ہیں۔ عورتوں کی اکثریت کپڑے بھی مختصر نہیں پہنتی۔ ان کا لائف اسٹائل بہت ہی اعلے ہے۔ بوڑھے جوان، مرد عورت ہر کوئی ورزشی دوڑ لگاتا نظر آئے گا۔ ایک اور عادت ان کی یہ ہے کہ ہر فرد کی پیٹھ پر طالب علموں کی طرح ڈفل بیگ لٹکا ہوگا جس میں اسکے ضروت کا سامان ہوگا۔

یہاں کے رہائشی علاقے کے مکانات بھی بہترین نقشے کے مطابق بنائے گئے ہیں۔ مکانات سب کے سب دو منزلہ ہیں اور ایک ہی ڈیزائین کے ہیں۔ ہر گھر کے ساتھ کار پارکنگ اور چھوٹا سا باغیچہ ضرور ہوتا ہے۔ گھر کے اندر صاف ستھرا پانی ہر وقت دستیاب ہوتا ہے۔ بجلی کا ناغہ نہیں ہوتا۔ بجلی کی ٹرانسمیشن لائنیں زیر زمین ہیں۔ ہماری طرح مکھڑی کا جال نہیں ہیں۔ گلیاں اور فوٹپاتھ وسیع اور صاف ستھری ہیں۔ ہر گھر کے باہر مختلف قسم کے کوڑا کرکٹ کے لیے الگ الگ بڑے بڑے کوڑےدان رکھے ہوئے ہیں جنہیں ہفتے کے ایک مقررہ دن اٹھایا جاتا ہے۔ رہائشی علاقوں میں قریب قریب سرسبزو شاداب پارک موجود ہیں جن کی بہترین نگہداشت کی جاتی ہے۔ (جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی