آئرلینڈ یاترا۔۔۔3

آئرلینڈ یاترا۔۔۔ 3

اب جب کہ ہم آئرلینڈ پہنچ گئے ہیں تو چلیے پہلے اس ملک کے محل وقوع اور باشندوں کی تاریخ  کے بارے تھوڑی جان کاری ہو جائے۔ لہذا ہم پہلے انتہائی اختصار کے ساتھ یہ بتائیں گے کہ آئرلینڈ کہاں واقع ہے اور اس کے باسیوں کی تاریخ کتنی پرانی ہے اور وہ کن کن حالات سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں؟
آئرلینڈ براعظم یورپ میں تیسرا بڑا جزیرہ ہے جو یورپ کے شمال مغرب میں اور بحر اوقیانوس کے شمال مشرق میں واقع ہے۔  Irish sea اسے انگلینڈ  اور بحر کلٹک Celtic sea  اسے یورپ سے جدا کرتا ہے. اس کا رقبہ کم و بیش 84 ہزار کلومیٹر ہے۔ اس کی آبادی اونچاس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔  اس کا نشیبی وسطی علاقہ میدانی ہے جس کے گرداگرد ساحلی پہاڑی سلسلہ ہے۔ اس کا مغربی ساحلی حصہ ناہموار پہاڑی گھاٹیوں اور جزیرہ نما ٹکڑوں پر مشتمل ہے۔ اس کی سب سے اونچی پہاڑی چوٹی Carautoohil سطح سمندر سے 1050 میٹر اونچی ہے اور سب سے پست حصہ دس فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ آئرلینڈ کا سب سےبڑا دریا دریائے Shannon  ہے جس کی لمبائی 360 کلومیٹر ہے جو شمال سے جنوب کی طرف بہتا ہوا بحر اوقیانوس میں جا گرتا یے۔
آئرلینڈ کی آب و ہوا سردیوں میں نہ بہت سرد اور نہ گرمیوں میں زیادہ گرم  ہے۔ سرما میں درجہ حرارت کم از کم 2 ، 3 اور زیادہ سے زیادہ 8 ،9 درجہ سنٹی گریٹ رہتا ہے جب کہ گرمیوں میں 17, 18 درجے سے آگے نہیں بڑھتا۔ جنوری اور فروری سرد ترین اور جون جولائی گرم ترین مہینے ہیں۔ بارشوں کے لحاظ سے خود کفیل ہے۔ وقت بے وقت بونداباندی ہوتی رہتی ہے اور زمین ہمیشہ پرنم رہتی ہے۔ آسمان پر بادلیں تیرتے رہتے ہیں۔ گاہے بگاہےسورج کا چہرہ دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہے۔
ایک بات میری سمجھ میں اب تک نہیں آئی ہے کہ یہاں کے اکثر لوگ اس موسم میں بھی ننگے سر پھیرتے ہیں۔ زیادہ افراد کے بال بھی منڈھے ہوتے ہیں۔ مجھ جیسے بوڑھے تو بالوں سے مکمل طور پر فارع ہیں۔ان کو سردی کیسے نہیں لگتی جب کہ ہم سر کو کانوں تک ٹوپی میں چھپانے کے باوجود سردی محسوس کرتے ہیں۔ تاہم ایک بات اب تک میں نے نوٹ کی ہے کہ یہاں کی سردی ہمارے پاکستان کی طرح نہ جسم کے اندر گھستی اور نہ اوپر سے کاٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ مجھ جیسا آدمی دستانے پہنے بغیر  گھوم پھیر سکتا ہے۔
یہاں شاہ بلوط، برچ ( بوڑی) اور چنار کے درخت پائے جاتے ہیں۔ سرو اور دیار کی قسمیں بھی کہیں کہیں نظر آتی ہیں۔ سوائے کبوتروں اور کوؤں کے پرندے اتنے زیادہ دیکھنے میں نہیں آئے۔ ممکن ہے جنگلوں میں ملیں گے۔ البتہ اپنے ہموطن چتکبرے ( کݰیپی) سے ملاقات ضرور ہوئی۔

آئرلینڈ کا 5/6 حصہ ریپبلک آف آئرلینڈ کے قبضے میں ہے جب کہ  شمالی1/6 حصہ یونائٹڈ کنگڈم میں شامل ہے۔ یعنی انگلینڈ، سکاٹ لینڈ اور ویلز کے ساتھ ہے۔
آئرلینڈ چار صوبوں میں منقسم ہے یعنی kienster, Munster, Connacht and Ulster۔  اس کا سب سےبڑا اور پرانا شہر ڈبلن ہے جو صوبہ لینسٹر میں واقع ہے اور آئرلینڈ کا صدر مقام بھی ہے۔

آئرلینڈ میں انسانی آبادی کی تاریخ تقریباً 10 ہزار سال قدیم بتائی جاتی ہے۔ قدیم باشندوں کی نسل کے بارے میں معلومات نہیں ملیں۔ 1200 قبل مسیح میں کیلٹ  Celt قوم کی یہاں آمد ہوئی جو مقامی باشندوں میں گھل مل گئی۔ ان کے آپس میں رشتوں کے نتیجے میں موجودہ آئرش قوم وجود میں ائی۔ 
پانچویں صدی عیسوی کے نصف اول میں  سینٹ پیٹرک نے یہاں عیسائی مذہب کی تبلیغ شروع کی اور گرجے بنوائے۔ اس سے پہلے کے باشندے مظاہر پرست تھے۔ اس کے بعد وائیکنگز نے 795 عیسوی میں لوٹ مار کے غرض سے اس پر قبضہ کیا۔ ان کا اقتدار دسویں صدی کے اختتام تک زوال پذیر ہوا۔ ان کے بعد بارھویں صدی میں نارمنوں نے اسے اپنے تصرف میں کیا۔  سن 1600 میں یہاں شجرکاری کی مہم چلی جس میں انگریزوں نے مقامی لوگوں کی زمینیں ان سے زبردستی چھین کر انگریز خاندانوں کے حوالےکیں۔ جس نے یہاں کی ابادی میں تقسیم پیدا کی جو آج تک شمالی آئرلینڈ کی صورت میں موجود ہے۔ 1649 میں اولیور کرمویل Oliver Cromwell جب یہاں کا فوجی اور سول کمانڈ سنھبالا  تو اس نے کیتھولک عیسایوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ وہ انتہا پسند پیورٹین تھا۔ پادریوں کا قتل عام کرایا اور گرجا گھروں کو نیست و نابود کردیا۔ ان کو ان کی مقبوضہ زمینوں اور گھروں سے بے دخل کیا اور یہ زمینیں انگریز فوجیوں کو دیدیں۔ دس لاکھ کیتھولک آئرش قتل ہوئے۔ کرمویل یہاں سب سے زیادہ قابل نفرت شخص سمجھا جاتا ہے۔
1645-52 کے دوران یہاں شدید قحط پڑا کیونکہ ان کی خوراک کا واحد بڑا ذریعہ آلو کی فصل مکمل طور پر تباہ ہوگئ تھی۔ ان کا دوسرا بڑا ذریعہ آمدنی بھیڑ اور بیل گائے تھے جنہیں وہ اپنے انگریز آقاؤں کی زمینوں اور مکانوں کا بڑھتا ہوا کرایہ ادا کرنے کی خاطر بیچ ڈالا کیونکہ کرایہ ادا نہ کرنے والوں کو وہ زمینوں اور گھروں سے بے دخل کرتے تھے۔ اس شدید قحط کے دوران دس لاکھ افراد بوکھوں مرگئے اور اتنی ہی تعداد جان بچانے کی امید میں امریکہ ہجرت کر گئ اور امریکہ کے ساحلی علاقوں میں بس گئ۔ انگریزوں نے برصغیر پاک وہند کی عوام پر اتنے ظلم نہیں ڈھائے تھے جتنا بے رحمانہ سلوک آئرش باشندوں کیساتھ کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ برطانویوں سے اب بھی نفرت کرتے ہیں۔
آئرلینڈ میں وقتاً فوقتاً آزادی کی تحریکیں اٹھتی رہیں اور ناکام ہوتی گئیں۔  البتہ ان تحریکوں نے آزادی کی بنیاد تو رکھدیں۔ آخرکار 1920 میں جو تحریک چلی اس نے بڑی انسانی جانوں کی قربانیوں کے بعد موجودہ آئرلینڈ کو برطانوی شہنشاہیت کے تسلط سے آزاد کرالیا۔ 1922 میں آئرلینڈ ایک آزاد خودمختار ریاست کی حیثیت حاصل کرلی۔
آئرلینڈ کی آزادی کے لیے جن شخصیات نے جدوجہد کی اور قربانیاں دیں ان کی فہرست بھی کافی لمبی ہے۔ آئرش تاریخ کے مطابق ان کی تحاریک آزادی کے ہیرو یہ ہیں۔

ہینری گریٹن(1746-1820), وولف ٹون (1763-98)٫ ایوارڈ فیزرلینڈ(1763-98), رابرٹ اینیٹ (1778_1893٫ ),ڈینئیل او کونیل (1775_1847)مائکل ڈیوٹ (1846_1906), چارلس سٹیورٹ پارنیل (1846_1891 (آرتھر گرفت (1872_1922، پیٹرک ہینری پیرس (1879_1916، ایمون ڈیولیرا (1882_1975), سئین میکبرائڈ(1904_88) نوبل پیس پرائز وینر مائکل میلن (1863_98)
سائنس اور ادب کے شعبوں میں نمایاں نام یہ ہیں
رابرٹ بوئیل فزکس، سر ویلیم ہملٹن، ماہر فلکیات اور ریاضی دان، جارج برکلےفلاسفر، ایڈورڈ ہینکس سومیرین زبان دریافت کی، جان بیکنل بری کلاسیکل سکالر، ایرنسٹ ٹی ایس ویلٹن نیوکلر فزیزسٹ،جوناتھان سووفٹ ڈین آف سینٹ پیٹرک کیتھڈرل اور گلیورس ٹریولز کے خالق،اولیور گولڈ سمتھ، رچرڈ برنسلے شریڈن، آسکر وائلڈ اورجارج برنارڈ شا۔
ان کے علاؤہ  آئرلینڈ کی سر زمین مختلف علوم و فنون میں عالمی شہرت کے حامل کئی شخصیات کی جنم بھومی ہے۔ طوالت سے بچنے کے لیے تذکرہ موقوف کردیا۔ (جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی