آئرلینڈ یاترا

آئرلینڈ یاترا
پچھلے سال جب آئرلینڈ کے لیے ہماری ویزہ درخواست مسترد ہوئی تھی تو اہل یورپ کو کوسنے دینے کے ساتھ ساتھ اپنوں کو بھی برابھلا کہتا رہا کیونکہ ویزہ کے لیے درخواست جمع کرانا ہم دور دراز علاقوں کے باسیوں کے لیے جان جوکھوں کا کام ہے۔ سینکڑوں کلومیٹر کا سفر اور وہ بھی کھنڈرات جیسی سڑکوں پر ہچکولے کھاتے ہوئے جب اسلام آباد پہنچتے ہیں تو ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس والے ہماری چمڑی اتارتے ہیں۔ ہم نےپچھلے سال اس سلسلے میں دو دفعہ سفر کیا۔ پہلی دفعہ درخواست جمع کرانے اور دوسری دفعہ جب اعتراضات لگا کر درخوست واپس کردی گئی تو اپیل کے لیے ہمیں آنا پڑا تھا۔  چترال کا ہر کوئی جانتا ہے کہ جب وہ تورکھو، مولکھو، لاسپور اور یارخون سے دیر کی طرف آتا ہے تو اسے کس کس عذاب سے گزرنا پڑتا ہے۔ دیر سے نیچے سڑکوں کی حالت بہتر ہے اس لیے سفربھی تھوڑا آرام دہ ہوتا ہے۔ نظر انداز وادی چترال کے اندر سڑک نما کھنڈرات کے اوپر کسی بھی قسم کی آرام دہ گاڑی میں سفر کے دوران انجر پنجر ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ اگر آدمی کی عمر ساٹھ سال سے اوپر ہو تو ویسے بھی ہڈیوں کی کمزوری اور جوڑوں کا ڈھیلا پن عام ہوتا ہے اور معمولی جھٹکوں سے جسم میں ٹوٹ پھوٹ کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ اتنی مشقت اٹھانے اور اپنی پنشن کی کمائی خرچنے کے بعد جب تمہیں اطلاع دی جاتی ہے کہ جناب تیری اپیل بھی مسترد ہوگئ کیونکہ وقت پر متعلقہ دفتر نہیں پہنچی، تو اندازہ لگائیں کہ آپ پر کیا گزرے گی؟
یہاں یہ بھی بتاتا جاؤں کہ پچھلے سال ایک نامعقول پنجابی ویزہ کنسلٹنٹ کی وجہ سے ہماری اپیل بروقت آئرلینڈ نہیں پہنچی تھی اس ناہنجار نے ہم سے موٹی رقم بطور فیس وصولنے کے باوجود ہماری اپیل وقت پر نہیں بھیجا تھا ۔ اس نا خلف بندے کو بھی ہمارے ہی ایک برخوردار نے منتخب کیا تھا۔ اسی وجہ سے اپنوں پر سے بھی اعتماد اٹھ گیا۔ اس لیے میں اہل چترال کو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ چترالی کنسلٹنٹس کے ذریعے ویزہ کے لیے ایپلائی کیا کریں جو فیس بھی مناسب لیں گے اور کام بھی تسلی بخش کریں گے۔ مئی 2019 میں جب ہم نے استنبول کے لیے ویزہ کی درخواست دی تھی تو اپنے "چترال کنسلٹنٹسی اینڈ ویزہ سروسز فرینڈز مارکیٹ، پارک روڈ، چھٹا بختور، اسلام آباد"  کی خدمات حاصل کیں اور بلا کسی اعتراض وغیرہ کے ہمیں ویزہ ملا۔ اس مرتبہ آئرلینڈ کے لیے بھی انہی کی وساطت سے کاروائی کی اور اللہ کے فضل سے کوئی مسلہ پیش نہیں آیا اور بروقت ویزا ملا۔
میں اپنے ہموطنوں کو یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم پاکستانیوں کو اہل یورپ اور امریکہ ویزہ ایشو کرنے میں کیونکر کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ اس کی اصل وجہ ہماری وعدہ خلافی ہے۔ اکثر لوگ مختصر دورہ کا ویزہ حاصل کرکے باہر جاتے ہیں اور پھر صحت اور جان کے خطرے کا بہانہ بناکر واپس نہیں آتے اور یوں ان ملکوں پر غیر ضروری بوجھ بن جاتے ہیں۔ اس لیے ویزہ ایشو کرنے والے حکام یہ تسلی کرانا چاہتے ہیں کہ درخواست کنندہ ویزہ کا مقررہ میعاد ختم ہونے پر ہر صورت میں واپس اپنے ملک جانے کی یقین دھانی کرائے یعنی درخواست کے ساتھ ایسی دستاویزات منسلک ہوں جو درخواست کنندہ کو مقررہ مدت کے اندر اپنے ملک واپسی کا ٹھوس ثبوت مہیا کر سکیں۔ ان میں خاندانی رشتے اور جائیداد  سے متعلق مستند ثبوت بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔
آئرلینڈ کےلیے ہماری قطر ائیرویز کی فلائٹس دو حصوں پر مشتمل تھیں۔ اسلام آباد سے قطر اور قطر میں 14 گھنٹے آرام کرنے کے بعد وہاں سے ڈبلن کےلیے دوسرے جہاز میں سوار ہونا تھا۔ ہم نے استنبول جاتے وقت بھی قطر ائیرویز استعمال کیا تھا اور اس سروس کو بہترین پایا تھا اس لیے آئرلینڈ کے لیے بھی دخترم  ڈاکٹر زبیدہ سرنگ نے قطر ائیرویز ہی میں سیٹیں بک کروائی تھیں۔
بچوں کی مشاورت سے دوحہ ائیرپورٹ پر 14 گھنٹے کے انتظار کو مختصر کرنے اور قطر والوں کی فری ویزہ سہولت کا فائدہ اٹھانے کا پروگرام بھی بنایا تاکہ قطر کے دو تین قابل دید مقامات دیکھ سکیں۔

اسلام آباد سے ہماری فلائٹ دوگھنٹے کی تاخیر سے روانہ ہوئی کیونکہ دھند چھایا ہوا تھا۔ قطری وقت کے مطابق ایک بجکر 20 منٹ پر ہم دوحہ ائیر پورٹ پر اترے۔ اس پرواز کے دوران سر میں شدید درد رہا جو غالباً اونچائی کا سبب تھا۔ استنبول جاتے ہوئے بھی اسی طرح درد سر کا شکار ہوا تھا۔ بھلا ہو بیگم صاحبہ کا ان کے پاس ڈسپرین کی گولیاں ہر وقت موجود رہتی ہیں۔ ان سے تھوڑا افاقہ ہوا۔ دوحہ ائیر پورٹ پر اترتے ہی حسب ہدایت صاحب کریم خان ہم قطر ڈسک پہنچے تاکہ ویزوں پر ٹھپا لگوا کر باہر نکل سکیں۔ (جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی