آئرلینڈ یاترا۔۔۔2

آئرلینڈ یاترا۔۔۔2
امیگریشن ڈسک پر موجود عربی بھائی کو جب ہم نے اپنا مقصد بتا دیا تو اس نے پہلے پولیو ویکسین سرٹفیکیٹ کا پوچھا۔ ہم نے فوراً پیش کیا۔ پھر اس نے کسی yellow paper کے بارے دریافت کیا تو ہم حیران رہ گئے کہ یہ پیلا کاغذ کیا بلا ہے کیونکہ ان کے ویب سائیٹ پر ایسی کسی چیز کا ذکر نہیں تھا۔ ہم نے کہا کہ اس کا تو ہمیں کوئی علم نہیں تھا۔ پھر اس نے معذرت کرکے ہمارے پاسپورٹ واپس کردیے۔ ان سے مزید بحث فضول سمجھتے ہوئے ہم مایوس ہوکر ائیرپورٹ کی عمارت کے اندر 12 گھنٹے کا طویل دورانیہ گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ خیال تھا کہ قطر ائیرویز کے ایسے مسافروں کے لیے آرام اور خوردونوش کا کوئی مناسب انتظام ہوگا۔  ائیرپورٹ کے اہلکاروں سے پوچھنے پر انہوں نے ہمیں quite rooms میں آرام کا مشورہ دیا۔ ہم خوش ہوگئے کہ کم از کم پرسکون کمرہ تو مل جائیگا جہاں آرام دہ صوفے ہوں گے جن پر چند ساعت آرام کرسکتے ہیں اور تھوڑی سی نیند بھی ممکن ہوسکتی ہے۔ جب اس جگہہ پہنچے جہاں کوائٹ روم لکھا ہوا تھا تو پتہ چلا کہ سینکڑوں مسافروں کے لیے بنایا گیا لاونج ہے جہاں لمبی لمبی نیلی پیلی سخت میٹریل کی بنی ہوئی فیکسڈ کرسیاں قطاروں میں لگی ہیں جن پر آدمی پیٹھ کے بل نصف دراز حالت میں تکیہ لگانے کے انداز میں لیٹ سکتا تھا۔ کروٹ میں لیٹنے کی گنجائش نہیں تھی۔ اب ایک تھکا ماندہ مسافر ان سخت چیزوں پرکب تک تکیہ لگا کر ٹانگیں پھیلائے بیٹھ سکتا تھا؟ جب بیٹھے بیٹھے نشست اپنی بوڑھی ہڈیوں کو کاٹنے لگتی تو اٹھ کر ادھر ادھر گھومنے لگتا اور جب ٹانگیں دکنے لگتیں تو آکر بیٹھ جاتا۔جب رات ہونے لگی تو بھوک بھی تنگ کرنے لگی۔ میں نے بیگم سے کہا، چلیے کچھ کھا پی لیتے ہیں۔ قریبی فوڈ سٹال پر فاسٹ فوڈ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ہم نے مجبوراً دو سینڈوچ،  دو مگ کالی چائے اور ایک چھوٹی بوتل پانی کی خریدیں۔ جب بل 120 قطری ریال ( پاکستانی کرنسی میں 5400 روپے) کا آیا تو میری کفایت شعار بیگم صاحبہ کے گویا ہوش ہی اڑ گئے اور غصے میں سیخ پا ہوگئیں۔ کہنے لگیں " اتنے مہنگے کیوں بیچتے ہیں یہ دولت مند عربی لوگ؟ یہ تو لوٹ رہے ہیں ہم مسافروں کو" میں نے اسے چپ کرانے کی کوشش کی کہ بھئ یہ لوگ کیا کہیں گے۔ "ان غریب پاکستانیوں کو 40 ریال کی ایک سینڈوچ، 16 ریال کی ایک گلاس کالی پھیکی چائے اور 8 ریال میں پانی کی چھوٹی بوتل خریدنے کی اوقات نہیں ہے اور سفر کرتے ہیں شہزادوں کے جہاز میں؟" پھر میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا" ہم تو پاکستانی ووٹر ہیں، نواز شریف تو نہیں کہ قطری شہزادہ کروڑوں کےریال بخشش کریں"۔
مجھے اس وقت سمجھ آئی کہ قطر ائیرویز اپنی connected flights میں اتنا بڑا وقفہ کیوں رکھتی ہے؟ اس کے بغیر ان کی دکانداری کیسے چلے گی۔ جو اشیاء ڈیوٹی فری کے نام سے یہاں بکتی ہیں ان کی قیمتیں کم از کم ہم پاکستانیوں کے لیے ہوشربا ہیں البتہ دینار، ریال، ڈالر اور یورو میں کمانے والوں کے لیے سستی لگتی ہوں گی۔ ان دکانوں میں چیزوں کی قیمتیں دیکھنے کے بعد مجھے اپنے پاکستان کی مہنگائی بالکل ہیچ لگی۔ جو چیز پاکستانی ائیر پورٹ شاپس میں ایک ہزار روپے میں بکتی ہے بالکل وہی چیز یہاں دس ہزار میں بکتی ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان اور عرب ممالک کی قیمتوں میں کتنا بڑا فرق ہے۔
 دوحہ ائیرپورٹ پر یہ بارہ گھنٹے گویا بارہ سالوں پر محیط لگے۔ خدا خدا کرکے وقت کٹ گیا اور ہماری ڈبلن کی فلائٹ اڑان بھرنے لگی۔رات کی تاریکی میں سفر خوشگوار رہا۔ ہنس مکھ اور خوش شکل ائیر ہوسٹسوں نے خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ دن کی اکتاہٹ بھی اب آہستہ آہستہ دور ہوتی گئی۔  رات دو بجے ناشتہ بھی کھلایا گیا جو ڈنر سے کچھ کم  بھاری نہیں تھا۔ بیگم صاحبہ نے کہا اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ اس وقت وہ ہمیں ڈنرنما ناشتہ کھلانے والے ہیں تو اپنے ساڑھے پانج ہزار روپے بچا لیتے۔ میں نے کہا اب پچھتائے کیا جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ قطر سے آئرلینڈ کے آٹھ گھنٹے کا لمبا ہوائی سفر بھی با عافیت گزرجائے تو شکرخدا بجا لائیں اور قطری ہم مذہبوں کی نا انصافی بھول جائیں۔
 آئرلینڈ کے وقت کے مطابق صبح چھ بجے ہمارا جہاز ڈبلن کے ائیر پورٹ پر اترا۔ امیگریشن کے مراحل سے بغیر کسی تاخیر کے گزر گئے۔ یہاں کا ائیرپورٹ عملہ انتہائی شائستہ اور فرینڈلی تھا۔ امیگریشن اور کسٹم والوں نے ہمارے ہینڈ کیری تک نہیں دیکھا اور نہ کوئی سوال کیا۔ پاسپورٹ پر ٹھپا لگاکر شکریہ کے ساتھ واپس کرتے ہوئے بائی بائی کہتے ہوئے اپنے ملک میں داخل ہونے دیا۔ بیگیج ری کلیم پر بھی زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا۔  ہمیں اپنا سامان لینے کے بعد اسی جگہ بچوں کا انتظار کرنا تھا جو بلغاریہ سے ایک گھنٹے بعد پہنچنے والے تھے۔ وہ اپنی قانونی چھٹیوں سے فائدہ اٹھا کر یوروپی ممالک کی سیر کو نکلے تھے۔ ان کا جہاز بھی تاخیر کا شکار ہوا تھا جس کی اطلاع ڈاکٹر زوبی نے واٹس ایپ کال کے ذریعے دی تھی۔ اس پر میری بیگم صاحبہ نے بیٹی کودو چار غائبانہ صلواتیں سنائیں کہ ان کو اس وقت ہمارا انتظار کرنا تھا نہ کہ بلغاریہ گھومنے جاتی۔ دراصل اس سفر نے ہم دونوں کو تھکا دیا تھا اس لیے ائیرپورٹ پر مزید انتظار کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔ 
 ڈبلن ائیرپورٹ پرانا اور چھوٹا سا ہے اور کوئی خاص شوشا بھی نظر نہیں آیا۔ تاہم اس وقت باہر سے آنے والوں کا تانتا بندھا تھا کیونکہ ملک سے باہر رہنے والے آئرش کرسمس منانے اپنے ملک لوٹ رہے تھے اور باہر منتظرین کا ہجوم تھا۔ دو چار بوڑھی خواتین اپنے کتوں سمیت انتظار کر رہی تھیں جو بھونک بھونک کر ہمارے مغز کھا گئے۔ ایک طرف ایک ٹولی کرسمس کے گیت گا رہی تھی۔ اس شور و غل میں موبائل فون کی آواز بھی پوری طرح سنائی نہیں دے رہی تھی۔ بچوں کے پہنچنے کے بعد بھی ہم اور بچے ایک دوسرے کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے کافی وقت ضائع ہوا اور مزید تھک گئے۔ بچوں سے ملنے کے بعد ہمارے ننھے سیاح  ہادی محمد غوث نے ہماری بوریت اور تھکاوٹ دور کردی۔
 ٹرمینل سے باہر نکلتے ہی سردی کا شدید احساس ہوا کیونکہ اس ائیر پورٹ کے اردگرد جنگل ہی جنگل ہے۔ شاید اس وجہ سے یہاں سردی زیادہ تھی۔ بچوں نے جلدی ایک ٹیکسی پکڑی۔ جب ہم اس میں گھس گئے تو  جان میں جان ائی۔ (جاری ہے)
 

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی