آئرلینڈ یاترا۔۔۔6

 
پرلطف دعوت
 ہمارا خیال نہیں تھا کہ ہم آئرلینڈ میں اپنے بچوں کے علاؤہ کسی دوسرے پاکستانی کی محفل میں بیٹھ سکیں گے۔ ہمارا خیال غلط نکلا جب اگلے دن ڈاکٹر زبیدہ سرنگ نے ہمیں بتایا کہ 25 دسمبر کو ان کے ایک سینیئر ماہر امراض چشم ڈاکٹر عزیز الرحمن صاحب نے پہلے ہی سے ہمیں اپنے گھر دعوت دے رکھی یے۔ اول تو ذرا ہچکچایا شاید ابھی تک لمبے سفر اور قطریوں کے سلوک کی تھکاوٹ دور نہیں ہوئی تھی۔  پھر ہم نے سوچا کہ جب دنیا کے اس کونے میں کوئی اہل وطن پیار سے کھانے پربلا رہا ہے تو انکار کفران نعمت کے زمرے میں آتا ہے۔ لہذا ہم نے ہاں کردی۔ دن کے ساڑھے بارہ بجے ڈاکٹر عزیز  صاحب خود ہی ہمیں لینے پہنچ گئے۔ ان سے مل کر خوشی ہوئی کہ آدمی ایک سیدھا سادہ پختون تھا۔ مجھے ایسا ملا کہ جیسا کہ بہت پرانی شناسائی ہو۔ میں عام طور پر اپنے دوست پختونوں سے کہا کرتا تھا کہ آدمی اگر صحیح معنوں میں پٹھان ہے تو وہ سچا مسلمان بھی ہوگا کیونکہ پٹھان دوستی اور وعدے کا پکا ہوتا ہے۔ انتہائی مہمان نواز ہوتا ہے۔ دشمنی بھی کرے تو کھل کر کرتا ہے۔ اس میں منافقت نہیں ہوتی۔ اگر کسی پختون میں یہ اوصاف مفقود ہیں تو وہ نہ پٹھان یو سکتا ہے اور نہ درست معنوں میں مسلمان کہلا سکتا ہے۔
 
ڈاکٹر عزیز الرحمن کا تعلق لکی مروت سے ہے۔ اس نے اسلام آباد میں بھی گھر بنارکھا ہے۔ اور یہاں بھی اپنا گھر ہے۔ وہ گزشتہ پچیس سالوں سے آئرلینڈ میں مقیم ہیں اور پریکٹس کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر عزیز صاحب ہمیں یہاں کے مشہور پارک " فینکس پارک" کی سیر کراتے ہوئے اپنے گھر پہنچا دیا۔ ہمیں یہ معلومات بھی  بہم پہنچاتے گئے۔ کہ فینکس پارک بہت وسیع و غریض پارک ہے جہاں آئرلینڈ کے صدر کی رہائشگاہ کے علاؤہ امریکہ بہادر کے سفیر کا گھر بھی  اس کے بالمقابل موجود ہے۔  کسی اور ملک کا سفیر یہاں رہائش نہیں رکھ سکتا۔ نیز ڈبلن کا چڑیا گھر بھی اسی پارک کے اندر ہے۔ گویا یہ پارک ایک طرح کی الگ دنیا ہے۔ یہاں بھی امریکہ کا سفیر اس ملک کے صدر کے روبرو سینہ تانے کھڑا ہے۔ 
  
  ڈاکٹر عزیز صاحب کا گھر بڑا کشادہ اور ہر طرح سے مزئین تھا۔ گھر کی آرائش و زیبائش کو ہم  یقینی طور پر ان کی بیگم صاحبہ کا کمال کہہ سکتے ہیں۔ ہر چیز سلیقے سے رکھی گئی تھی۔ ایک کونے میں کرسمس ٹری بھی روشنی بکھیر رہا تھا۔ جب ہم اس ٹری کی طرف متوجہ ہوئے تو ڈاکٹر صاحب شک میں پڑ گئے کہیں ہم نے اسے مسیحی خیال تو نہیں کیا۔ کہنے لگے کہ بچوں کا شوق ہے کہ وہ کرسمس کے دنوں کرسمس ٹری گھر میں کھڑا کرتے ہیں۔ میں نے کہا، بھئ اس میں کیا قباحت ہے کہ آپ یہاں کی عوام کی مذہبی تہوار میں شریک ہوتے ہیں تو بہت اچھا کرتے ہیں۔ ویسے عیسیٰ علیہ السلام صرف مسیحیوں کا پیغمبر تو نہیں۔ ہم بھی اسے ایک جلیل قدر پیغمبر مانتے ہیں ورنہ ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ اس لیے آپ علیہ السلام کا جنم دین منانا ہمارا بھی حق بنتا ہے۔
  
 ڈاکٹر کی بیگم  محترمہ ثناء عزیز نے ہمارا پر تپاک استقبال کیا۔  سلام کرنے میں ہم سے سبقت لیتے ہوئے 
 اس نے عربی لہجےمیں اسلام علیکم اور اہلاوسہلا کہا تو ہم نے خیال کیا کہ یہ تو ٹپیکل عربی خاتون ہیں اور خواتین کی آپس میں گپ شپ کی مشکل کا سوچا۔ ایسا لگا گویا وہ ہمیں برسوں سے جانتی ہوں۔ انتہائی خوش مزاج اور سیرت و صورت میں اعلے خوبیوں کی مالک خاتون نکلیں۔ ان کی اور میری بیگم صاحبہ کی خوب بنی۔ خوب گپ شپ لگی اور زور زور کے قہقہے بھی لگے۔ ثناء صاحبہ کے والد سوات کے تھے اور ماں مصری تھیں۔ یعنی ان کی رگوں میں عربی اور پشتون خون کی بہترین آمیزش تھی۔ البتہ مہمان نوازی میں زیادہ باپ پر گئی ہیں۔ ہم نے عربوں کی مہمان نوازی تجربہ قطر ائیرپورٹ پر کیا تھا۔ انہوں نے امریکہ سے انگریزی ادب میں ماسٹر کی ڈگری لی ہیں۔ ان کو عربی، انگریزی، پشتو اور اردو زبانوں پر مکمل عبور حاصل ہے۔ غالباََ پنجابی بھی بولتی ہوں گی۔ڈاکٹر صاحب خود بھی انتہائی منکسرالمزاج  ہنس مکھ اور مرنجان و مرنج آدمی ثابت ہوئے۔شان اور آدم ان کے دو پیارے پیارے بیٹے ہم سے ملے۔ آدم بولڈ بچہ ہے جب کہ شان تھوڑا شرمیلا لگا ۔ انہوں نے ہادی خان کو کمپنی دی اور وہ آپس میں دوست بنے اور کھیلنے میں مشغول ہوگئے۔ کچھ دیر بعد ایک اور خاندان بھی تشریف فرما ہوا۔ تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ وہ آئرلینڈ میں ہمارے محترم سفیر ہیں۔ ہزاکسلینسی شجاع عالم صاحب کا تعلق ہزارہ کے کوٹ نجیب اللہ سے ہے۔ ان میں کسی قسم کی افسر شاہی والی صورت بالکل نظر نہیں آئی۔ بہت ہی شریف اور ڈاؤن ٹو ارتھ آور تکلف سے پاک شخصیت کے مالک ہیں۔  شجاع صاحب درست معنوں میں سفیر ہیں۔ کھل کر گپ شپ ہوئی۔ ان کی بیگم صاحبہ بھی بڑی وضع دار اور سنجیدہ خاتون ہیں۔ دو بچیاں بھی ہمراہ تھیں۔ انہوں نے سلام کیا اور حال احوال پوچھے۔ عام طور پر اتنی نو عمر بچیاں اجنبیوں سے ملتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار ہوتی ہیں۔لیکن یہ بچیاں بھی اپنے ماں باپ کی طرح مہذب اور شائستہ وضع کی تھیں۔ ۔
کچھ دیر بعد یکے بعد دیگرے مہمانوں کی آمد ہوتی گئی۔ ڈاکٹر امجد ماہر امراض اطفال تشریف لائے۔ امجد صاحب بھی اعلے اور پیاری شخصیت کے مالک ثابت ہوئے۔ وہ چالیس سالوں سے یہاں خدمات انجام دے رہے ہیں اور اپنے شعبے کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں اور ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد پاکستان میں ہلکی پھلکی پریکٹس کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کا گھر اسلام آباد کے جی سیون میں ہے۔ ان کے ساتھ  فیملی نہیں تھی۔  ماہر نفسیات ڈاکٹر ارشد صاحب بھی نفیس آدمی ہیں۔ ان کا تعلق بھی لکی مروت سے ہے۔ ان کے ساتھ فیملی نہیں تھی۔ بتایا گیا کہ ان کی بیگم بھی ہیلتھ سے تعلق رکھتی ہیں اور ڈینٹل سرجن ہے جو اس وقت پاکستان گئی ہوئی تھیں۔ آخر میں ایک نوجوان جوڑی بھی محفل کی زینت بن گئی۔  دونوں میاں بیوی ڈاکٹرز تھے۔ ڈاکٹر سرمد اور ڈاکٹر عائشہ جن کا تعلق لاہور سے ہے۔ ان کے ساتھ عمر رسیدہ ماں جی بھی تھیں اور ان کی اکلوتی چھوٹی بچی ہمراہ تھی۔ ڈاکٹر عائشہ کو ادب سے بڑی دلچسپی ہے۔ اس نے بتایا کہ ان کی امی ائیر فورس کے کسی تعلیمی ادارے میں پرنسپل رہ چکی تھیں اور اب ریٹائر ہوچکی ہیں۔ انگریزی زبان کی شاعرہ بھی ہیں۔ جب ڈاکٹر سرنگ  نے اسےبتایا کہ ہمارا تعلق بھی درس و تدریس کے شعبے سے رہا ہے اور ادب کی تھوڑی شد بد بھی رکھتے ہیں تو اس نے ہمارے ساتھ گفتگو میں بڑی دلچسپی لی۔ کہنے لگیں کہ انہیں ادب کیساتھ بڑا لگاؤ ہے اور ادبی لوگوں کے ساتھ گپ شپ لگاتے ہوئے خوشی محسوس کرتی ہیں۔ بڑی علم دوست اور شگفتہ مزاج خاتون ثابت ہوئیں۔ ان کے شوہر نامدار ذرا کم گو سنجیدہ وضع ادمی نکلے۔ البتہ شائستگی اور بول چال کی ملاحت میں وہ بھی کسی سے کم نہیں تھے۔
یوں جناب ڈاکٹر عزیز کے دولت خانے میں ان کی بڑی اور آراستہ ڈرائینگ روم میں ہم وطنوں کی بڑی یادگار قسم کی نشست ہوئی۔ پاکستانی سیاست زیادہ زیر بحث رہی۔ ان سب حضرات بشمول ڈاکٹر زوبی اور صاحب کریم  نے مزہ لے لے کر گفتگو میں حصہ لیا سوائے مجھ فقیر کے جو ویسے بھی پاکستانی سیاست سے بیزار ہے۔ دل ہی دل میں نے انشاء اللہ خان کا یہ شعر پڑھا، 
نہ چھیڑ اے نگہت باد بہاری راہ لگ اپنی، 
تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں۔
تاہم اہل محفل کی سنتا رہا اور ہاں میں ہاں ملاتا رہا۔ البتہ میں نے ہماری میزبان محترمہ ثناء  کے ہاتھوں کے بنے نوع بنوع کے درجنوں خوش ذائقہ  کھانوں کا خوب لطف اٹھایا اور پیٹ بھر کر کھایا۔ سارا طعام پاکستانی بلکہ پشاوری تھا اور بہت ہی عمدہ تھا۔ جس کی تعریف کے لیے الفاظ کی کمی محسوس کر رہا ہوں۔ اسی طرح میٹھا بھی چار پانج قسم کا پیش کیا گیا۔ ہم نے تمام قسام خوردو نوش کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا۔  میں حیران تھا کہ ایک اکیلی دبلی پتلی خاتون نے یہ انواع و اقسام کا سارا کھانا کس طرح تیار کیا ہوگا؟ اس کا کوئی مددگار بھی نظر نہیں آیا۔ شاید ان کے خاوند نے تھوڑی بہت مدد کی ہو کیونکہ یورپ میں رہنے والے مرد حضرات ہر فن مولا ہوتے ہیں۔ جب کھانا ختم ہونے کے بعد ہمارے سفیر محترم کی بیگم صاحبہ اور ان کی بچیوں اور ڈاکٹر زبیدہ نے برتن ڈھونے میں میزبانوں کی مدد کی تو مجھے ان کا یہ انکسارانہ، بے تکلفانہ اور دوستانہ کردار بہت پسند آیا اور دل ہی دل میں سراہا بھی۔ بہر حال ڈاکٹر عزیز الرحمن اور ان کی بیگم صاحبہ کی پر لطف شاہانہ دعوت اور اہل محفل کی خوشگوار گفتگو زندگی بھر یاد رہیں گی۔ (جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی