افسوس صد افسوس!

 افسوس صد افسوس!

میں ایک بزرگ شہری ہوں جسے پاکستان کی چشم دید تاریخ 1958 تا حال اچھی طرح یاد ہے۔ میں نے گہری نظر سے اپنے ملک کی حکمرانی کا مشاہدہ کیا ہے۔ سیاسی اور  فوجی حکومتوں کے ماتحت رہا اور بغور مشاہدہ کیا ہے۔مجھے نہیں لگتا کہ فوج کا کوئی قدم جان بوجھ کر ملکی مفاد کے خلاف رہا ہو بلکہ فوجی حکمرانوں (ماسوائے یحییٰ کے) کی نگرانی میں ملک ترقی کی راہ پر گامزن رہا تھا۔ ملک کا وقار بلند رہا تھا۔ کرپشن نہیں تھی۔ انصاف تھا۔ فیلڈ مارشل ایوب کی حکومت ہو یا جنرل پرویز مشرف کی، عوام خوشحال تھے۔ ملک کے بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے فوجی حکمرانوں کے مرہون منت ہیں۔ جہاں تک فوجی حکومت کی قانونی حیثیت کا تعلق ہے تو آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ قانون اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ ملک کساد بازاری اور انارکی کا شکار ہو جائے۔ ملک کا امن و امان تباہ ہو جائے۔ بد عنوانی میں ترقی کر جائے۔ عوام افلاس میں مبتلاء ہو جائیں۔ عوام کا پجاس فیصد اپنے بنیادی حقوق سے محروم رہ جائیں۔ ہمارے سیاست دانوں نے کب آئین کی پاسداری کی ہے؟

ملک کے سابق سپہ سالار، سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی وفات کے بعد ان کے خلاف زہر افشانی کرنے والوں کی اس قبیح حرکت پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ کیا ان کی غیر حاضری میں ایکس پارٹی ڈگری کے ذریعے، انہیں دفاع کا موقع دیے بغیر انہیں غدار قرار دینا انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے؟

  ایک شہری کی حیثیت سے میرے بنیادی سوالات یہ  ہیں کہ فوج کو مارشل لاء لگانے پر مجبور کیوں کیا گیا؟ 

کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی افواج کے سپہ سالار کو غیر ملکی دورے کے دوران سبکدوش کرنا اور ملک بدری کا حکم دینا درست تھا؟ کیا اپنی فوج کا مورال پست کرنا ملک کے وزیر اعظم کا درست اقدام تھا؟

کیا حکومت پر قبضہ کرنے کا فیصلہ مشرف کا اکیلا تھا یا دوسرے اعلی فوجی آفیسر بھی شریک تھے؟ یقیناً تھے۔ لہذا اگر یہ جرم تھا تو اجتماعی تھا انفرادی نہیں تھا۔ ایک فرد کو مجرم ٹھہرانا نا انصافی ہے۔

کیا کسی بیمار شخص کی عدم موجودگی میں ان کو غائبانہ اور یک طرفہ سنائی گئی سزا قابل عمل ہو سکتی ہے؟

ان ججوں کے بارے میں کیا خیال ہے جنہوں نے پرویز مشرف کے اقدام کو درست قرار دیا تھا؟

کیا 2007 میں پاکستان کی منتخب اسمبلی ایمرجنسی نافذ کرنے میں شریک کار نہیں تھی؟ ان کے خلاف کیس کیوں نہیں بنا؟

ملک توڑنے والوں کو کسی نے غدار قرار نہیں دیا بلکہ عدالت کے فیصلے کا مزاق اڑاتے ہوئے انہیں شہید قرار دیا جا رہا ہے  جب کہ اپنی فوج کے مورال کی حفاظت کرنے والے کو غدار قرار دیا گیا جو بڑا  سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان اور پاکستانی فوج کے ساتھ محبت کرنے والے ایسے فیصلوں کو نہیں مانتے۔

پاک آرمی اپنے جرنیل کو اس کی حیثیت کے مطابق تجہیز و تکفین کا حق رکھتی ہے اور کرکے دکھائے گی۔ 

اللہ تعالیٰ ہمارے عظیم جرنیل سابق صدر سید پرویز مشرف کو اپنے جوار رحمت میں جگہہ دے! پاک آرمی زندہ باد! پاکستان پائندہ باد! 

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی