چلو اذربئیجان چلیں

ماہ اکتوبر کے شروع میں ڈاکٹر زبیدہ سرنگ اسیر نے بونی، اپر چترال  میں اپنی کلینک کے اختتام پر  اذربائیجان جانے کا پروگرام بنایا  تو مجھے بے حد خوشی ہوئی کیونکہ آذربائجان اور مصر دیکھنے کا شوق بہت پہلے سے پال رکھا تھا۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران کورونا کی وبا نے ہمارے پیروں میں خوف جان کی زنجیر ڈال رکھی تھی اس لیے ہم نے باہر جانے کا خیال دل سے نکال رکھا تھا۔
 25اکتوبر 2022 کی صبح سویرے بونی اپر چترال سے اپنی جہاں دیدہ گاڑی میں شریک حیات اور تین بچیوں کے ساتھ روانہ ہوا۔ جاوید مستری کے ساتھ دو تین مہینے پہلے پروگرام بنا رکھا تھا کہ میری  گاڑی مرمت کے لیے پشاور پہنچا دے۔ چونکہ گاڑی بہت بوڑھی ہو چکی تھی اس لیے مستری کا ساتھ ہونا بہت ضروری تھا۔ چترال میں ال بوستان رستوران میں اچھا سا ناشتہ کیا۔ منظم لڑکوں نے ہماری اچھی خاصی خاطر تواضع کی۔ دوپہر کا کھانا تیمرگرہ میں اپنے بہت ہی پیارے دوست اور عزیز ڈی ایس پی شافی شفا کے ساتھ طے تھا۔ سفر کا آغاز خوشگوار ہو تو سفر کا انجام بھی خوشگوار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سن رسیدہ لوگ اپنی قدیم روایت کے مطابق گھر سے نکلتے وقت اپنے گھر کے کسی پیارے کو دروازے کے باہر کھڑا کرکے اس کا چہرہ دیکھ کر گھر سے باہر قدم رکھتے ہیں۔ عموماً قرآن پاک بھی سر پر رکھ کر یہ عمل کرتے ہیں جسے "موخہ نسیک" کہتے ہیں۔ اس لیے جب شفا صاحب نے فون پر دعوت طعام دی تو بخوشی قبول کیا اور اسے اپنے سفر کے لیے "موخہ نسیک" قرار دیا۔ شافی شفا ایک ایسی مرنجان و مرنج شخصیت کا نام ہے جس کی آنکھوں میں معصوم سی شرارت اور ہونٹوں پر دلآویز مسکراہٹ ہر وقت رقصاں رہتی ہے۔ برمحل اردو، فارسی اور کھوار اشعار سے محفل کو زعفران زار بناتے رہتے ہیں۔ شاعری، رقص اور گلوکاری میں طاق اور مزاح میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ ایک قابل پولیس آفیسر بھی ہیں۔۔ گویا شافی شفا ہر فن مولا شخصیت کا نام ہے۔ ان سے ملاقات دل کو خوشیوں سے بھر دیتی ہے۔ 
گاڑی کی شکستہ حالی تیز رفتاری کی اجازت نہیں دے رہی تھی اس لیے شفا بھائی کو ہمارے انتظار میں کافی وقت برباد کرنا پڑا ۔ از راہ تفنن ہمیں بتایا تھا کہ "نیلگوں کپڑوں میں ایک سفید ریش بندے کو بر سر راہ استادہ پائیں گے" میں نے کہا،" بھائی آپ کو لاکھوں کے ہجوم میں بھی شناخت کروں گا"  تیمرگرہ متبادل سڑک کے بڑے چوک میں ان کو منتظر پایا۔ ہمیں اتر کر گلے ملنے کی اجازت نہیں دی۔ ہماری رہنمائی میں اپنی گاڑی آگے بڑھا دی۔ تیمرگرہ میونسپل کمیٹی کے گیسٹ ہاؤس پہنچانے کے بعد ہی معانقہ کا موقع دیا۔ بہترین کھانا میزوں پر سجا پایا اور اس پر ٹوٹ پڑے کیونکہ دن کے تین بج چکے تھے اور بھوک زوروں پر تھی۔ کھانے کے ساتھ اچھا خاصا انصاف کیا۔ ڈاکٹر زہرہ ولی بھی ناسازی طبیعت کے باوجود اپنے مقبول ترین ماموں کی گفتگو سے محفوظ ہوتے ہوئے کھانا بھی کھایا۔ شفا صاحب حسب عادت کھانے کے دوران ہمیں انٹرٹین کرتے رہے۔ چند اشعار بلبل ولی بلبل کے سنائے اور ایک عدد مزاحیہ مکالمہ اپنے ایک سمدھی لال کا سناکر ہمیں ہنسا کر لوٹ پوٹ کیا۔ دل نہیں چاہ رہا تھا کہ ان کی محفل کو چھوڑ دیں پر کیا کریں سفر کو جاری رکھنا تھا۔
رات گئے بخیریت پشاور پہنچ گئے۔

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی