وادئ ‏ہنزہ ‏و ‏نگر۔۔۔4

پیارے لوگ سہانی شام
عطا آباد جھیل کے کنارے سے اس مہمان خانے کے پل پر قدم رکھنے کی ہمت نہیں ہوئی تو میں نے صاحب کریم خان کی جوان ہمت سے فایدہ اٹھایا اور اسے اس دیو مالائی قسم کی قیام گاہ کے اندر بھیجا۔ وہ بخیریت پل غبور کر گیا اور رزورٹ کے اندر گیا اور پھر واپس آکر ہمیں بھی پل غبور کرنے کو کہا۔ ہم بھی ایک ایک ہوکر پل سے گزرے اور قدموں کی معمولی اتار چڑھاؤ اور ڈگمگانے اور جسم کو ملنے والے ہلکے ہچکولوں کو ہم نے برداشت کر ہی لیا کیونکہ ہم اہل چترال اپنی سرکاروں کی کمال توجہ سے عمر بھر اس قسم کے جھولتے پلوں سے گزرتے رہے ہیں۔ آج سے پینسٹھ برس پہلے تک یارخون کے گاؤں پترانگاز اور اوڅھوہون کے مقام اتصال پر دریائے یارخون کے اوپر ایک پل ہوا کرتا تھا جسے تیلی سیری یعنی بید کا پل کہا جاتا تھا۔  یہ جالی پل بید اور سندر کی شاخوں کو بٹ کر بنائی گئی رسیوں سے بنا جھولا پل ہوتا تھا۔ چار موٹی رسیاں آر پار کینچھ کر دونوں اطراف میں دو دو دوشاخہ سخت لکڑی کے ستونوں کے اوپر سے گزار کر بڑے بڑے بھاری پھتروں باندھ دی جاتی تھیں۔ نیچے قدم رکھنے کے لیے قدم قدم پر انہی رسیوں کو باندھی جاتی تھی اور دونوں اطراف میں تین چار فٹ اونچی رسیوں کے ساتھ ان ہی رسیوں سے جوڑ کر ایک کوریڈور نما جالی کا پل تیار ہوتا تھا۔ آج کل پیدل گزرنے کے لیے لوہے کی موٹی تاروں سے جو جھولا پل بنتے ہیں، تیلی سیری بھی ہوبہو ان جیسا ہوا کرتا تھا سوائے اس کے تیلی سیری میں لکڑی کی تختیاں نہیں ہوتی تھیں۔ پل  درمیاں سے اتنا بیٹھا ہوا ہوتا تھا کہ دریائے کی لہریں اس سے ٹکراتی رہتی تھیں اور ہوا کا معمولی جھونکا اسے جھلاتا رہتا تھا۔ مجھے ایک دو دفعہ رشتے کے رضاعی ماموں نے اپنی پیٹھ پر بٹھا کے اس پل سے گزارا تھا۔ اس پل کی لمبائی کم از کم ڈیڑھ سو فٹ تھی۔ اس " لرزیدہ  پل منحنی" پر سے گزرتے ہوئے مجھے جو شدید ڈر لگا تھا وہ آج تک ذہن میں زندہ ہے۔ اس لیے اس قسم کے متحرک   پل  کو جھیل کے سینے پر دیکھ کر خوف آنا فطری بات ہے۔
جب اس کے عجیب و غریب کاشانے کے اندر داخل ہوئے تو عجیب سی سحر انگیز کیفیت پیدا ہوئی۔ میں نے رزورٹ کے مشرقی پہلو کے ساتھ لگی سیڑھی چڑھ کر چھت پر جا اترا اور چاروں طرف پھیلی قدرت کی تخلیقات میں کھو گیا۔
کوئی دس منٹ بعد قمر شہزاد، غلام مصطفٰے اور جان عالم صاحب تشریف لائے۔ قمر صاحب نے غلام مصطفے اور جان عالم کا تعارف کرایا۔ غلام مصطفے صاحب کا تعلق ششکت گاؤں سے ہے اور پیشے کے لحاظ سے ماہر زراعت ہیں۔ قمر صاحب کے دوست اور آج کی شام کی دعوت کے میزبان تھے۔ جان عالم صاحب سابق استاد، ضلعی کونسل کے کونسلر رہ چکے ہیں اور اس وقت سماجی کارکن اور رضاکارانہ خدمت گار ہیں۔ یہ صاحب بھی قمر شہزاد صاحب کے پرانے دوستوں میں سے ہیں۔
ہم نے ڈلفن رزورٹ کی سبز چھت پر ایک کڑک سی چائے پی۔ اس کے بعد میں نے معذرت کے ساتھ رخصت چاہی۔ وقت شام ہونے کو تھی اور علی آباد میں میرے برخوردار جاوید احمد ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسر ضلع نگر ہمارے انتظار میں ہلکان و پریشان ہو رہے تھے جن کو پہلے ہم نے دوپہر کے کھانے کا کہا تھا پھر اسے بدل کر شام کے لیے کھانا تیار کروانے کو کہا تھا اس لیے کہ کمال الدین صاحب کے گھر ک"سنڈے برنچ" نے دوپہر کے کھانے سے روک لیا تھا۔ جاوید احمد جو ہمارے دور کے چچا نور نواز خان لال میراگرام نمبر 1 کے فرزند، اے اے سی چترال،  رب نواز خان کے چھوٹے بھائی اور اسرار احمد خان اے سی (ر) میراگرام نمبر 1 کے چچا زاد ہیں اور انتہائی خیال رکھنے والے اور قدراں انسان ہیں۔ ہم نے چھٹی کے دن اسے اور اس کی بیگم صاحبہ کو اپنے خوردونوش کی تیاری اور انتظار میں سارا دن مصروف رکھا تھا جس کا مجھے شدید احساس ہو رہا تھا۔ 
میں نے اپنی مجبوری بتفصیل پیش کی لیکن قمر شہزاد صاحب نے مصمم ارادہ کیا ہوا تھا کہ وہ مجھے کسی صورت چھوڑنے والے نہیں ہیں۔ انہوں نے فیصلہ سنا دیا، " آمدن بہ ارادت، رفتن بہ اجازت، لہذا بھابی اور بچے جا سکتے ہیں۔ آپ کو یہ رات ہمارے ساتھ بتانی ہوگی اور صبح آپ کو سلامت گلگت پہنچانا ہماری ذمے داری ہوگی" میں نے برخودارم جاوید سے فون پر معذرت کرتے ہوئے شام بلکہ رات تیرنے والے مکان میں گزارنے کا فیصلہ کیا بلکہ کرایا گیا۔ اسی وقت کمال الدین ڈی سی ہنزہ بھی آگئے۔
شام کے ڈھلنے کے ساتھ دو اشخاص کا مزید اضافہ ہوا۔ یہ صاحباں گوہر ایوب اور اعجاز آف ششکت تھے۔ گوہر ایوب باہر سے انگریز سا لگا کیونکہ ان کے سر کے بال، داڑھی اور مونچھیں نا تراشیدہ اور نسبتاً بے ترتیب سے لگے اور سر پر انگریزی ٹوپی تھی۔ یہ بھی قمر شہزاد کے لنگوٹیا یاروں میں سے تھے جب قمر صاحب ہنزہ کے اسسٹنٹ کمشنر ہوا کرتے تھے۔ گویا آج یہاں پر قمر شہزاد صاحب کے اعزاز میں بڑے بوڑھے دوستوں کا اکھٹ تھا جس میں میری شرکت اتفاقی تھی۔ ہم میں جوان سال شریک محفل صرف کمال قمر ہی تھے۔ تاہم بعد میں جوان فنکاروں کی آمد سے جوانوں کی تعداد بھی مناسب حد تک بڑھ گئی۔آج اگر میں ہنزہ نہ آتا تو اس سہانی شام جھیل کے اوپر ڈلفن رزورٹ کے پیٹ میں ان پیارے لوگوں سے ملاقات نصیب نہ ہوتی۔ 
رات تھوڑی سی ڈھل گئی تو چار جوان موسیقی کے مختصر آلات کے ساتھ حاضر ہوئے۔ ان شوقیہ فنکار جوانوں نے اپنا تعارف کرایا تو پتہ چلا کہ سوائے ربابی کے گلوکار، طبلہ نواز اور کیٹل ڈرم بجانے والے تینوں یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ تھے جب کہ رباب بجانے والا لاہور کے کسی موسیقی کے ادارے میں استاد تھے۔ ناموں کو اس وقت یاد کیا تھا لیکن صبح بھول گیا سوائے گلوکار کے جس کا نام عظیم ہنزائی ہے۔ میں نے بعد میں شریک محفل دوستوں سے ان کے نام دریافت کرنے کی کوشش کہ مگر ناکام رہا۔ اس لیے ان زندہ دل جوانوں سے معذرت کرتا ہوں۔ عظیم ہنزائی میوزک گروپ کے طور پر ان کے چہرے یاد رہیں گے۔ میں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ یہ جواں اپنی ثقافت کو زندہ رکھنے اور ہمسایہ ثقافتوں کے ساتھ ارتباط بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ موسیقی کا پروگرام دلکش اور پر کیف رہا۔ عظیم ہنزائی کو بہترین گلوکار پایا۔ اس نے بروشسکی، وخی، اردو اور کھوار میں گیت گاکر شرکاء کا دل موہ لیا۔ سازندوں کا پرفارمینس قابل تعریف تھا۔ موسیقی کی یہ محفل رات بارہ بجے تک جاری رہی۔ شام کا کھانا بھی بڑا لذیذ تھا جو باربی کیو اور یخنی پر مشتمل تھا۔
محفل برخاست ہونے کے بعد حسب پروگرام مجھے ڈی سی ہاؤس ہنزہ میں رات گزارنی تھی اور صبح غلام مصطفے صاحب نے مجھے وہاں سے لے کر گلگت پہنچانا تھا۔ قمر شہزاد صاحب کہنے لگے، " کل ہم مسگار جائیں گے اور آپ بھی ہمارے ساتھ ہوں گے". میں نے معذرت کرلی کیونکہ میں مسلسل دو راتیں نامکمل نیند کے ساتھ گزارنے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ بڑی مشکل سے قمر شہزاد صاحب اور ان کے فرزند ارجمند کمال الدین صاحب کو راضی کر لیا۔ پھر قمر صاحب نے مجھے یہیں رات گزارنے کی اجازت دیدی اور میں نے کاشانہ شناور میں ایک پر سکون رات بسر کی اور صبح ڈلفن رزورٹ کے باورچی اعجاز بلتی کے ہاتھ کا بنایا ہوا ناشتہ کھا کر مصطفےٰ صاحب کی گاڑی میں گلگت روانہ ہوا۔ 
مصطفے صاحب  مجھے اپنے گاؤں ششکت تک لے کے گیا۔ ان کے بڑے بھائی سے ملاقات ہوئی جو اپنے تباہ شدہ مکانات کا ملبہ ہٹا رہا تھا۔ عطا آباد جھیل نے ان بھائیوں کے مکانات اور باغات کو بھی ڈبو دیا تھا اور شدید مالی نقصان پہنچایا تھا۔ بتایا گیا کہ سرکار نے انہیں محض چھ چھ لاکھ روپے بطور امداد دے دیے جب کہ ان کا نقصان اس کئی گنا زیادہ تھا۔ انہوں نے اپنے پرانے باغات کی جگہ نئے سرے سےپودے لگائے ہیں۔ غلام مصطفٰے کے بقول جو اگلے سال پھل دینے لگیں گے۔
ششکت سے گلگت تک کے سفر کے دوران میں نے مصطفےٰ صاحب سے زراعت کے بارے میں بیسوں سوالات پوچھے اور ان کے جوابات سے بہت کچھ سیکھا کیونکہ میں بھی زراعت، خاص کرکے شجر کاری کا عاشق رہا ہوں۔ میں نے وادی کے اندر پھلدار درختوں کو پست قد پایا اور اس کی وجہ پوچھی تو مصطفےٰ نے بتایا کہ پھلدار درختوں کی سالانہ شاخ تراشی ہونی چاہیے کیونکہ نئی شاخوں پر پھل زیاد لگتے ہیں اور صحت مند بھی ہوتے ہیں۔ مصطفےٰ صاحب کو اپنے پیشے کے ساتھ والہانہ محبت ہے۔ وہ پوری دلجمعی کے ساتھ سونامی شجر کاری مہم کو آگے لے کے جا رہے ہیں۔ اس میں نئ قسم کو متعارف کرانا بھی شامل ہے۔ سونامی مہم میں پھلدار پودے لگانے کا منصوبہ ان کی نگرانی میں چل رہا ہے۔ 
میں نے اس غیر آباد زمین کے بارے میں بھی پوچھا جو گوجال اور نگر کے درمیان راستے میں پڑتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ زمین نگر اور ہنزہ والوں کے درمیان متنازغہ ہے۔ اس لیے غیر آباد پڑی ہے۔ وادی ہنزہ میں زمین کی قلت ہے۔ لوگوں نے پہاڑوں کے ایسے دشوار گزار ڈھلانوں کو آباد کیا ہوا ہے جہاں پرندہ بھی نہیں پہنچ سکتا۔ ان حالات میں قابل کاشت وسیع رقبے کا یونہی بے کار پڑا رہنا بہت بڑا نقصان ہے۔ (جاتی ہے)

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ