فطرت کا مشاہدہ
اس وقت مشرقی کراچی کے جس مکان میں رہائش پذیر ہوں یہ اس عمارت کی چوتھی منزل پر ہے اور جس کے سامنے بھی سات فٹ چوڑی بالکونی ہے۔ میرا زیادہ وقت اس بالکونی میں گزرتا ہے۔ یہاں سے جنوب مغربی کراچی کا میلوں تک نظارہ ممکن ہے کیونکہ سانے کوئی اونچی عمارت نہیں کہ آنکھوں کے سامنے حائل ہو ۔ کوئی خاص دلکشی اس منظر میں نہیں ہے۔ کنکریٹ کا جنگل ہے ۔ صاف موسم ہو تو کہیں بہت دور سوئے مغرب ہست قامت پہاڑی سلسلہ نظر آتا ہے جو دل کو بھاتا ہے۔
لکھت پڑھت کے ساتھ ساتھ چیلوں، کوؤں اور کبوتروں کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کرتا ہوں۔ کوؤں کی بدمعاشیاں اور ڈھیٹ پن، کبوتروں کے غوڑ غوں اور ناچ بھی دیکھے سنے ہیں البتہ اس مرتبہ چیلوں نسل کشی کا عمل دیکھ رہا ہوں۔ جس وقت میری بیٹی ڈاکٹر زبیدہ سرنگ اسیر آغا خان یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھی اس وقت وہ بتایا کرتی تھی کہ اس کے کمرے کے سامنے درخت پر چیک کا گھونسلہ تھا۔ جب وہ اپنی کمرے سے نکلتی تو چیل اسے دیکھ کر اس پر حملہ اور ہوتا تھا۔ وہ ان سے ڈر کر اپنے زائد تعمیر لڑکیوں سے مدد لیتی تھی۔
میں جس بالکونی میں بیٹھتا ہوں اس کے سامنے عمارت کی دیواروں اور چھت پر چیلوں کی آمد و رفت سارا دن جاری رہتا یے۔ا ان میں ایک جوڑی قریب کی ایک عمارت کے اندر کہیں گھونسلہ بنا رہی ہے۔ وہ گھونسلے کے لیے جو میٹرئیل جمع کر رہی ہے اس میں لکڑی، ڈھوریاں پلاسٹک اور کپڑوں کے ٹکڑے شامل ہیں۔ زیادہ محنت مادہ کر رہی ہے ہے۔ یہاں بھی بوجھ خاتون خانہ پر ہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ معاشرے میں صنف نازک پر کام کا زیادہ بوجھ ایک فطری عمل کا حصہ ہے۔۔
۔ء
Comments
Post a Comment