غربت کا چہرہ

ہم گاوں والے جب شہروں کا رخ کرتے ہیں تو پشاور، اسلام اباد ،راولپنڈی، لاہور اور کراچی ہماری منزل ہوتے ہیں۔ ہم دیہاتوں میں نہیں جاتے۔ دیہاتیوں کی زندگیوں سے ناواقف رہتے ہیں۔۔ شہروں کے اندر ہماری گزر نسبتاً پوش علاقوں سے ہوتی ہے جہاں تھوڑی صفائی ستھرائی نظر آتی ہے اور جہاں جو سہولیات زندگی ملتی ہیں انہیں دیکھ کر رائے قائم کرتے ہیں کہ ملک کے زیرین حصے کے لوگ عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم اپنے پہاڑی علاقوں کی مشکلات کا موازنہ ان شہروں سے کرتے ہیں تو بڑا فرق نظر آتا ہے۔ میں بذات خود جب بھی کراچی آیا ہوں کراچی سے باہر قدم نہیں رکھا۔ کراچی کے اندر بھی محدود جگہوں کو دیکھنے کا موقع ملا ہے۔

اس مرتبہ کراچی آتے ہوئے ارادہ کیا تھا کہ سندھ کے اندر بھی جھانکنے کی کوشش کروں گا۔ یوں میرا پہلا دورہ ضلع ٹھٹہ کا تھا۔ ٹھٹہ دیکھنے کا شوق اس خطے کی انسانی آبادی کی قدامت اور اسلام کا برصغیر میں پہلا مسکن ہونے کے سبب سے تھا۔ چنانچہ بچوں سے کہا کہ ہمیں لے جائیں۔ یوں ہم کراچی سے ٹھٹہ کا کوئی سو سوا سو کلومیٹر کا سفر کیا۔ کراچی سے ٹھٹہ تک بہترین شاہراہ کی سہولت موجود ہے۔ کراچی شہر کی شایراہ فیصل سے نکلنے کے بعد جو میں نے دیکھا اور محسوس کیا وہ میری اس تحریر میں پیش قارئین ہے۔

سڑک اچھی بنی ہے اور قابل مرمت حصے کی مرمت بھی ہوئی ہے تاہم دیکھ بال کا انتظام ناقص ہے۔ صفائی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ سڑک کے اطراف میں کوڑا کرکٹ کے بدنما مناظر طبیعت کو مکدر کرتے رہے۔ راستے میں جہاں جہاں ہم بازار نما جگہوں سے گزرے ان کو دنیا جہاں کے کچروں سے بھرے پائے۔  

دوسری بڑی خرابی ٹریفک کی بدنظمی تھی۔ بہت کم ڈرائیوروں کو ٹریفک قوانین کی پیروی کرتے ہوئے پایا۔ سو کلومیٹر کے اس سفر میں کہیں ٹریفک پولیس نظر نہیں آئی۔

ضلع ٹھٹہ سندھ کے قدیم ترین علاقوں میں سے ہے اور جہاں اسلام بھی سب سے پہلے پہنچا تھا۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس تاریخی شہر کی طرف حکمرانان وقت نے کوئی توجہ نہیں دی  اور اسے کھنڈرات میں تبدیل کیا ہوا ہے۔ یہاں کے عوام انتہائی غربت زدہ نظر آئے۔ ان کے لاغر جسم اور بجھے ہوئے چہرے ان کی افلاس زدہ زندگی کی تصویر پیش کر رہے تھے۔ ہر جگہہ بھکاریوں کی فوج ظفر موج سے واسطہ پڑا۔ مسجد ہو یا قبرستان یا ساحل سمندر ہر جگہہ سینکڑوں بھکاری بچے بوڑھے مرد خواتین کو دیکھ کر دل بہت افسردہ ہوا۔ ٹھٹہ شہر کو دیکھ کر ایسا لگا کہ ہم دو سو سال ماضی میں داخل ہوگئے ہوں جہاں بوسیدہ جھگیوں میں لوگ رہ رہے ہیں اور کاروبار کر رہے ہیں۔ جہاں گدھے گاڑی اب بھی زیر استعمال ہیں۔ جہاں غریب خواتین چولہا جلانے کے لیے اب بھی  خشک گھاس پھوس اور جھاڑیاں جمع کرتے ہوئے دیکھی جاتی ہیں۔ جہاں کے گلی کوچے کوڑے دان کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ غرض آج سے کوئی ساٹھ سال پہلے میرے اپنے  علاقے کی حالت بھی ہوبہو ایسی ہی تھی۔ الحمدللہ! آج یہاں کوئی بھکاری، کوئی بے گھر اور کوئی جھگی والا نہیں ہے۔ ہماری غربت مٹانے میں ہزہائینس پرنس کریم آغا خان چہارم کے اداروں کا کردار سنہرے حروف میں لکھا جائے گا ورنہ ہم شمال کے لوگ تو مکمل مٹ چکے ہوتے۔ ۔

صوبائی دارالحکومت اور مزار قائد سے سو کلومیٹر کے فاصلے پر یہ سر زمین جس کی انسانی ابادی کی تاریخ 2000 ق م بتائی جاتی ہے اور جو چودھویں صدی سے لے کر اٹھارھویں صدی عیسوی تک سندھ کا دارالسلطنت رہ چکی ہے، جہاں ہزاروں اللہ کے نیک بندوں کی آخری آرام گاہیں مرجع خلائق ہیں اور جہاں سومرہ، سمہ، ارغون، ترخان اور مغل دور کی یادگار عمارتیں اپنے سینے پہ سجائے ہمارے قومی اثاثوں کی آمین ہے، آج اپنے حال زار پر نوحہ کناں ہے۔

 ٹھٹہ کے اندر مکلی قبرستان جو ایشیاء کا سب سے بڑا جائے مدفن ہے ایک بڑا عبرت جدہ ہے۔ جس کی ویرانی اور کس مپرسی دیکھ کر انسان کو اپنے انجام پر سوچنے کی دعوت ملتی ہے۔

چو آہنگ کردن کند جان پاک   چہ بر تخت مردن چہ 

بر روئےخاک۔

دس کلومیٹر لمبا مکلی قبرستان کے اندر کم از کم پانچ لاکھ افراد کو دفنایا گیا ہے جن میں ہزاروں بزرگان دین اور سلاطین اور حاکمین مدفون ہیں۔ معلوم ہوا کہ مکلی قبرستان کو یونیسکو نے وارلڈ ہیریٹیج قرار دے کر اپنی لسٹ میں شامل کیا ہے۔ حالات بتا رہے کہ اس کی حالت میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ جو ملازمین وہاں شٹل سروس چلا رہے ہیں اور جو مجاورین مزارت نظر آئے وہ بھی ویرانے میں بھوت ہی لگے۔ سلاطین کی قبریں  اپنے اپنے دور کے فن تعمیر کے شاہکار نمونے ہیں۔

ٹھٹہ میں شاہ جہاں مسجد یا شاہی مسجد بھی مغل دور کی عظیم ترین تعمیرات میں سے ایک ہے۔ جس کی ساخت، دیوار، 99 گنبد اور قرآنی آیات کی خطاطی اور کاشی کاری عقل کو خیرہ کر دیتے ہیں۔ سنا ہے کہ اس مسجد کی ایک خاصیت یہ ہے کہ بغیر لاؤڈ اسپیکر امام کی آواز نمازیوں کو سنائی دیتی ہے۔ مسجد میں بیس ہزار نمازی بیک وقت نماز ادا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ مسجد کی تعمیر کی تاریخ میں اختلاف یے۔ کوئی کہتا ہے کہ مسجد کی تعمیر 1644 میں شروع ہو کر1647 میں مکمل ہوئی۔ کوئی تکمیل کا 1659 بتاتا ہے۔ یہ بات طے ہے سترھویں صدی عیسوی کے وسط میں بنی تھی۔

یہ عظیم مذہبی تاریخی عمارت بھی محکمہ اوقاف سندھ کے مجرمانہ غفلت کا شکار ہے۔ جگہہ جگہہ منقش ٹائلز اکھڑ چکے ہیں۔ 

ٹھٹہ میں تیسرا اہم سیاحتی مقام کینجھر جھیل ہے۔ اس صاف ستھرے پانی کی جھیل 24 کلومیٹر لمبی اور چھہ کلومیٹر چوڑی ہے۔ ضلع ٹھٹہ اور کراچی کو پینے کا پانی اس جھیل سے ملتا ہے۔ اگر محکمہ سیاحت اس جھیل کو سیاحت کے فروع کے لیے استعمال کرے تو قومی خزانے کو اتنی رقم حاصل ہوسکتی ہے جس سے اس غربت زدہ ضلعے کی غربت دور کی جا سکے۔

ضلع ٹھٹہ کے اندر جھرک نامی گاؤں میں اسمعیلی امام حسن علی شاہ کی رہائش گاہ بھی اسمعیلی لوگوں کے لیے قابل احترام جگہہ ہے۔ گارے ، پھتروں اور لکڑی سے بنی یہ عمارت 180 سال پرانی ہے۔ خستہ حالت میں ہے۔ اس کی بحالی بھی ضروری ہے۔ اسٹیٹ آفس کو اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ٹھٹہ جاتے ہوئے کافی پُرجوش تھا۔ واپسی پر افسردگی محسوس ہوئی۔ سندھ پر چار پانج دھائیوں سے حکمرانی کرنے والوں کے لیے باعث شرم ہے غربت کا یہ چہرہ جس کا نام ٹھٹہ ہے۔۔ 

۔


Comments

Popular posts from this blog

انتقال غم آگین

دروغ گو را حافظہ نہ باشد

کنج عافیت