ہماری شرمناک سیاسی تاریخ
ہماری شرمناک سیاسی تاریخ
سیاست پر بات کرتے ہیں تو ہمیں بھی سیاسی جوہڑ کی کوئی مخلوق کہا جاتا ہے جو سراسر زیادتی ہے۔ ایسا سوچنا کہ سیاست پر لب کشائی بلکہ گلہ پھاڑ کر بولنے کا حق صرف اور صرف ان لوگوں کا ہے جو کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی رکھتے ہیں، بیشک سیاست کا الف با بھی ان کو نہ آتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مجھ جیسا بندہ چپ رہنے میں عافیت سمجھتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی چپ توڑنے کو جی کرتا ہے کیونکہ ہم بھی اس بدقسمت ملک کے باسی ہیں اور ہمیں بھی اپنی ناقص رائے دینے کا حق حاصل ہے۔ جب زبان ہلکی سی کھلتی ہے تو چند ایک دوستوں کی طرف سے "پسند" اور "ناپسند" کے تمغے سینے پر سجھتے ہیں۔
گزشتہ دو سالوں سے ہم جو سیاست دیکھ رہے ہیں یہ ہم سب کے سامنے ہے۔ ہم ایسی سیاست دیکھتے دیکھتے بوڑھے ہو گئے جس میں عدم برداشت، مفاد کی جنگ، انا پرستی، غیر مہذب زبان، جھوٹ، فریب، بدعنوانی، اقربا پروری جیسی برائیوں کا راج رہا ہے۔ انصاف کا فقدان رہا۔ غریب غریب تر ہوتا گیا امیر امیر تر ہوتا گیا۔ ملکی وسائل سے فایدہ اٹھانے کی بجائے غیر ملکیوں اور ملکی سیاسی خاندانوں کو فائیدہ پہنچانے کے سبیل پیدا کرتے رہے جس کی ایک زندہ مثال آئی پی پیز کو دیے گئے ٹھیکے ہیں جو غریب عوام کو لوٹ رہے ہیں۔
ہمیں ساٹھ کی دھائی میں بٹھو مرحوم کی تحریک یاد ہے۔ بحیثیت جذباتی نوجوان میں بھی ان کی تحریک کا ادنیٰ حصہ رہا۔ میں نے بھی فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے خلاف نا زیبا نعرے مارے تھے۔ نتیجہ اس تحریک کا دوسرا مارشل لاء ، جنرل یحییٰ کی ناکام حکمرانی اور بٹھو کی انانیت یا مفاد پرستی تھی جنہوں نے ملک توڑ ڈالا۔
پھر 1977 کے انتخابات اور بھٹو پر دھاندلی کا الزام ، ہاری ہوئی پارٹیوں کا اتحاد اور مذاکرات کی ناکامی، دھنگا فساد نے تیسرے مارشل لاء کو جنم دیا۔ ضیاء الحق دور ابھی کل کی بات ہے اور جس نے پرامن ملک کو دہشت گردوں کا اڈہ بناکر چھوڑا۔
1988 کے انتخابات کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والی پی پی پی کی حکومت گرانے کی نواز لیگ کی تحریک، شہید بینظیر کی حکومت کا خاتمہ، پھر نواز کی حکومت جس کے خلاف بینظیر کی تحریک الغرض سن نوے کی دھائی ان دو پارٹیوں (پی پی پی اور نواز لیگ) کے غیر سیاسی ہتھکنڈوں کی نذر ہوگئی۔ جنرل پرویز مشرف کا مارشل لاء بھی نا دان سیاسی لیڈر شپ کے غلط فیصلوں کےنتیجے کے طور پر مسلط ہوا۔
2008 سے 2018 تک پی پی پی اور ن لیگ نے حکومت کی البتہ عوامی تصورات پر اتر نہ سکے۔ تاہم فرینڈلی اپوزیشن کی پالیسی کے تحت دونوں نے اپنے اپنے ٹینیور پورے کیے۔ عوام ان کی کارکردگی سے مطمئن نہ ہو پائے اور 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو مینڈیٹ دیا۔ عمران خان کی حکومت پی پی پی اور ن لیگ کے بڑھوں کے لیے پھنسی کا پھندا بن گیا۔ لہذا ان دونوں نے اپنی دشمنیاں بھلا کر پی ٹی آئی کے خلاف ایکا کیا اور اسے گرا دیا جس کے نتیجے میں عوام کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا ہڑا۔ یہ ساری سیاسی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہمارے سیاست دان نابالغ ہیں۔ اگر یہ بالغ ہوتے تو جمہوریت اور جمہوری آزادی کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے۔ آج ہمیں یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا جس میں اپنے محافظوں کے ہاتھوں اپنوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔
ہمارے سیاسی بزرگ جمہروں کے مطابق ملک میں سیاسی عدم استحکام خفیہ ہاتھوں کی کارستانی ہے۔ یہ خفیہ ہاتھ ہر زمانہ حزب اختلاف کو ہی نظر آتا ہے۔ حزب اقتدار کو کبھی دکھائی نہیں دیا۔ جب سیاسی پارٹیوں کو ہر حالت میں خفیہ ہاتھ دکھائی دینے لگ جائے تب اس ہاتھ کو روکنا شاید ممکن ہو جائے۔
Comments
Post a Comment