آذربائجان ۔۔۔۔11

 نقوش : گوبستان یا قوبستان میں واقع قدیم انسانوں کے چھوڑے ہوئے نشانات دیکھنے مجھے اکیلے جانا پڑا کیونکہ بیگم صاحبہ کو اس قسم کی فرسودہ چیزوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ڈاکٹر زوبی کو اپنی ماں کے ساتھ ٹھہرنا پڑا۔ میں سیاحوں کی ٹولی کے ساتھ ایک کمپنی کی گاڑی میں ایک باتونی گائیڈ کی رہنمائی میں صبح 9 بجے باکو شہر سے روانہ ہوا۔ سیاحوں کی یہ ٹولی چھ بندوں پر مشتمل تھی۔ ایک انگریز مرد اور خاتون کی جوڑی اور دو پاکستانی میاں بیوی جن کی گود میں ایک شیر خوار بچی تھی۔ گائیڈ اور ڈرائیور ملا کر کل اٹھ افراد بن گئے گو کہ گاڑی کافی بڑی تھی ۔ اس موسم میں یہاں سیاح کم ہوتے ہیں۔ باکو شہر سے روانہ ہوتے ہی ہمارا قوی الحبثہ، کوہ نما ناک والا سیاحتی رہنما نے بولنا شروع کر دیا۔ اس کی انگریزی اچھی تھی لیکن بولنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ نصف سے زیادہ باتیں سمجھ میں نہیں آئیں۔ اس لیے اس کو سننے کی بجائے میں نے ارد گرد علاقوں کو دیکھنا  مناسب سمجھا تاکہ علاقے کا نقشہ ذہن میں محفوظ ہو۔  جب مجھے کچھ پوچھنے کی ضروت پڑی تب اس بندے کی طرف دیکھنے کی زحمت کی۔
باکو سے شمال مغرب کی طرف سفر کرتے ہوئے کیسپین کے ساحل کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے گئے۔ ہمارے بائیں طرف سمندر اور دائیں طرف زیادہ ترصحرائے گوبستان تھا۔  دور و نزدیک  بے آب و گیاہ پہاڑیاں اور ٹیلے تھے۔ سڑک کے ساتھ کہیں کہیں چھوٹی چھوٹی بستیاں نظر آ رہی تھی۔ گائیڈ نے بتایا کہ یہاں بارشیں کم ہوتی ہیں اور ندی نالوں کا پانی نہ ہونے کی وجہ سے یہ زمین غیر آباد پڑی ہے۔ زیادہ ریگستانی علاقہ تھا۔ قدیم زمانے میں یہ جگہہ کیسپین سمندر کے نیچے تھی۔ رفتہ رفتہ سمندر کی سطح گرتی گئی اور ریگستان نمودار ہوتا گیا۔
گوبستان نام کا ایک قصبہ اس صحرائی علاقے میں آباد ہے جس کی موجودہ آبادی چودہ ہزار نفوس سے اوپر ہے۔ یہاں انسانی ابادی کے نقوش پندرہ ہزار سال پرانے ہیں۔ اس قصبے کے مغرب کی طرف پہاڑی کے اوپر قدیم انسانوں کے چٹانوں پر کندہ نقوش موجود ہیں۔ ہم قصبے کی طرف نہیں گئے بلکہ سیدھا پہاڑی پر چڑھ گئے۔ کوئی ڈیڑھ دو کلومیٹر چڑھنے اور دو چار موڑیں کاٹنے کے بعد اس سطح مرتفع نما مقام پر پہنچ گئے جہاں بڑی بڑی چٹانوں کی ہموار سطحوں پر انسانوں، گھوڑوں، بیلوں، ہرنوں کی شبیہیں موجود ہیں۔ جنگ,شکار اور رقص کے مناظر کندہ کیے گئے ہیں۔ ان نقوش کی تعداد تقریباً چھہ ہزار  بتائی جاتی ہے۔ آثار قدیمہ کے کھوجیوں نے ان میں سب سے پرانے نقش کو چالیس ہزار سال پرانا بتائے ہیں۔ گویا 38 ہزار قبل مسیح میں یہاں انسانوں کا وجود تھا۔  یہ لوگ شکاری دور کے تھے اور غاروں میں رہتے تھے۔ ہم نے سارے غار اور سنگی نقوش دیکھے۔ یہاں کی چٹانیں چونے کے پتھر کی ہیں۔ ایک جگہہ زمین دوز چٹان پر کئی گڑھے بنے تھے جنہیں اس زمانے کے لوگوں نے پانی ذخیرہ کرنے کے لیے کھودے تھے۔ ایک پتھر ایسا بھی ہے جس پر پتھر مارنے سے طبلے کی آواز آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اس قسم کے پتھر ان کے آلات موسیقی میں شامل تھے۔ 2007 میں ان قدیم سنگی نقوش (Rock petroglyphs ) کو یونیسکو کے ورلڈ ہیریٹیج لسٹ میں شامل کیا گیا۔
یہاں رفع حاجت اور ہاتھ منہ دھونے کے لیے واش رومز بنائے گئے ہیں۔ ایک ریستوران بھی ہے جہاں ایک معمر خاتون توے پر روٹی پکا رہی تھی۔(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ