زبان قوم کی پہچان

زبان قوم کی پہچان 
جس وقت برصغیر پاک و ہند میں  آزادی کی تحریک چلی تھی اس کی بنیاد ہمارا دین اور اس کی روایات تھیں۔ ماضی میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والا حکمرانوں اور اکثریتی قوم کے امتیازی سلوک نے ہمیں ایک علحیدہ قوم ہونے کا احساس دلایا تھا۔ اس احساس سے تحریک آزادی کا جنم ہوا۔  ہمارے بزرگوں کی تخلیق اردو زبان جس کی ترقی کا دور شروع ہو چکا تھا،  اس تحریک کی آواز بنی۔ مختصر یہ کہ برصغیر میں ہم ایک مسلمان قوم  کی حیثیت سے اپنا تشخص اور ازادی برقرار رکھنے کی جد و جہد کا آغاز اردو زبان کے  ذریعے سے کیا اور اپنی منزل پاکستان حاصل کیا۔ آج بھی یہی تین عناصر ہمارے تشخص اور تحفظ کی ضمانت ہیں۔ پاکستان قائم ہے اور قائم رہے گا۔ اسلام ابدی مذہب ہے اور قیامت تک زندہ  اور اپنے زرین اصولوں پر قائم رہے گا اور اردو ہماری قومی یکجیتی کا ایک مضبوط وسیلہ اور قومی ترقی کی ضامن ہے کیونکہ اس کی نشونما میں مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ ہندو ، سکھ، انگریز علماء نے بھی بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے بابائے قوم نے اردو کو آج کے دن ملک کی قومی زبان قرار دیا تھا۔
پاکستان بننے کے بعد ہم نے عملی طور پر نہ اسلام کے لیے کچھ کیا، نہ پاکستان کے لیے کوئی خاص کام کیا اور نہ اردو زبان کو سینے سے لگایا۔ ہم پاکستانی قوم بننے کی بجائے سندھی، بلوچ، پنجابی، سرئیکی، ہزارہ، پختون وغیرہ وغیرہ قومیتوں کے گھروندوں میں گھس کر رہ گئے۔ مسلمان قومیت سے نکل کر سنی، شیعہ، بریلی، دیوبندی اور پھر  مذید مذہبی ٹکڑیوں میں بٹتے گئے اور ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے کے درپے رہے۔ اپنی زبان کی پرورش کی جگہہ انگریزی کو اپنی ترقی اور  تہذیب و تمدن کا معیار بنا کر انگریزی سیکھنے میں اپنا سب کچھ لگا دیا۔ اردو کو نظر انداز کیا۔ اسے قومی زبان کی عملی حیثیت نہ دے سکے ۔ ہماری اجتماعی نا اہلی کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ زندگی کے کسی بھی شعبے میں ہم نے کوئی کار نمایاں انجام نہیں دیا۔ لے دے کر ہم نے ایک ایٹم بم بنایا اور پھر اس کے خالق کے ساتھ جو سلوک کیا اس سے ہمارا سر شرم سے ہمیشہ جھکا رہے گا۔
ماضی کی ناکامیوں پر غور کرنے سے ہمیں واضح نظر آ رہا ہے کہ ہم نے پاکستان کے نظریے کو ٹھکرا دیا ہے۔ پاکستان کے آئین کو پس پشت ڈالا اور دین اسلام کو اپنے اپنے مخصوص گروہوں کے مفادات کے لیے نہ صرف استعمال کیا بلکہ اس کی تشریح بھی اسی تناظر میں کی۔ ہمیں اپنی ان قوم شکن غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنی اصلاح کرنی ہوگی ورنہ ہمارا نام و نشان تک مٹ جائے گا۔ آئیے ہم  قائد اعظم رح کے فرمودات، آئین پاکستان اور معزز عدالتوں کے احکامات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا عہد کریں کہ آج سے ہم :
 
1۔  اپنی قومی پہچان کی ہم ترین نشانی قومی زبان اردو  کو زندگی کے ہر شعبے میں نافذ کرنے کی جد وجہد کا عملی طور پر آغاز کریں گے۔
2۔ اپنے تمام خطوط اور پیغامات اردو میں لکھیں گے۔ رومن میں لکھنے سے اجتناب کریں گے۔
3۔  نجی اور سرکاری تقریبات میں وعظ و تقاریر اردو میں کریں گے۔
4۔  اپنے بچوں کے ساتھ روزمرہ کی گفتگو مادری زبان کے ساتھ ساتھ اردو میں کرنے کی مشق کریں گے۔
5۔  اپنی سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کو اس بات پر مجبور کریں گے کہ وہ اردو کے عملی نفاذ کی قرارداد قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پیش کرکے منظور کرائیں گے۔
6۔ انگریزی میں لکھا ہوا کوئی بھی سرکاری اور عدالتی حکم نامہ ہمیں قبول نہیں ہوگا۔
7۔ اعلےٰ ملازمتوں کے امتحانات کا اس وقت تک بائیکاٹ کریں گے جب تک اردو زبان میں نہیں لیے جاتے۔
8۔ اپنی معزز عدلتوں کو بار بار یاد دلاتے رہیں گے کہ وہ نفاذ اردو سے متعلق اپنے حکم ناموں پر عمل درآمد کروائیں۔

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی