آذربائیجانی...10

 ینار داغ میں زیادہ نہ ٹھہر سکے کیونکہ سردی ہڈیوں میں اتر گئی تھی۔ باہر نکلے اس امید پر کہ جلدی ٹیکسی مل جائے گی کیونکہ یہ جگہہ بر لب سڑک تھی۔ ہمیں سڑک کے کنارے انتظار کرنا پڑا جہاں بارش اور ہوا سے بچنے کے لیے کوئی بس اسٹاپ قسم کی چیز نہیں تھی۔ ایسے سیاحتی مقام پر چھوٹی موٹی انتظار گاہ ہونی چاہیے۔ ہمیں خالی گاڑی نہیں ملی۔ آخرکار ایک سواری والی ٹیکسی نے ہمیں دو کلومیٹر  آگے گاؤں تک کے لیے لفٹ دی۔ بوڑھا ڈرائیور تھا۔ میں اس کی اس ہمدردی پر بہت خوش ہوا۔ جب اس بستی پہنچے جہاں ہمیں گاڑی مل سکتی تھی تو اس نے ہمیں اتارتے ہی ایک دوسری ٹیکسی کے حوالے کرنے کی کوشش کی۔ میں نے اسے کرایہ دینے کا ارادہ کیا تو اس نے انکار کیا۔ پھر اس دوسری ٹیکسی کے ڈرائیور سے باکو تک کے لیے کرایہ کا پوچھا تو اس نے پچاس منت بتایا جو عام ریٹ سے پانج گنا زیادہ تھا۔ ہم نے کہا شکریہ ہم اپنے لیے ٹیکسی کا بندوبست خود کریں گے۔ جب ہم نے اس بوڑھے ڈرائیور کی پیشکش والی گاڑی میں بیٹھنے سے انکار کیا تو ظالم  بوڑھے نے اس دو کلومیٹر لفٹ کا کرایہ ہم سے پانج منت کھڑے کھڑے وصول کیا۔ تب پتہ چلا کہ آذربائیجانی ٹیکسی ڈرائیور کس قماش کے لوگ ہیں۔ ینار داغ میوزیم سے باکو کا کرایہ نو یا دس منت بنتا تھا۔ وہ بوڑھا ہمیں دوسرے ہم پیشے کے حوالے کرکے اس سے کمیشن لینے والا تھا۔ جب اس میں کامیابی نہ ہوئی تو بلاواسط ہمیں لوٹ لیا یعنی ڈیڑھ دو کلومیٹر کا 1275 روپے کرایہ وصول کیا۔ کاش ہمیں ترکی زبان سمجھ آتی یا اس لالچی بوڑھے کو تھوڑی انگریزی آتی ۔ کم از کم الفاظ کے ذریعے اس کی ٹھکائی کرتے۔دل کی بھڑاس نکل جاتی۔ یہ خواہش دل ہی دل میں رہ گئی اور ہم سات منت دے کر بولٹ کمپنی کی کار میں باکو پہنچ گئے۔

میرے بھائی ظفر اللہ پرواز نے خورد و نوش کا ذکر نہ کرنے پر اپنی تشنگی کا اظہار کیا تھا۔ اس لیے اس بے انصاف ٹیکسی والے کے "ذکر شر" کے ساتھ یہاں کے ہوٹلوں میں بکنے والی خوراک کا تذکرہ ہو جائے تو شاید پرواز کی گرسنگی دور ہو جائے اور میرے دل کی بھڑاس  نکل جائے۔ ہم نے تین چار دفعہ آذربائیجانی رستورانوں میں کھانا کھایا ۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ ہمارے پورے ہفتے کا بجٹ دو دن میں صفر پر آ جائے گا تو ہم نے گھر میں پکانے میں عافیت جانی۔ ہمارے کرایے کے مکان میں باوررچی خانہ جملہ سامان سے لیس موجود تھا۔

ایک شام کا کھانا ہم نے شہر قدیم یا ایچری شہر کے اندر ایک پندرھویں صدی کی عمارت میں قائم ریستوران میں کھایا۔  کھانا کیا تھا فقط  گوشت کے چند بوٹیوں اور کبابوں کے ساتھ بیکری کی موٹی روٹی پر مشتمل تھا۔ روٹی ضخامت میں خاصی موٹی جب کہ حقیقت میں کھوکھلی ثابت ہوئی۔ کراچی والوں کی کڑک روٹی کی طرح بے جان البتہ اس کی طرح کڑک نہیں تھی۔ ذائقہ اچھا تھا لیکن پیٹ بھر نہ سکا۔ جب بل آیا تو میرے اور بیگم صاحبہ کے تو ہوش ہی اڑ گئے۔ ڈاکٹر زبیدہ کو کوئی پریشانی نہیں ہوئی کیونکہ اسے  پاکستان سے باہر گھومنے اور کھانے کا تجربہ ہم سے زیادہ ہے۔ پاکستانی روپوں میں ہم تین بندوں کے کھانے کا بل چھ ہزار سے کچھ اوپر آیا تھا۔ ہمارے پشاور میں چھ ہزار روپوں میں کم از کم چار کلو مینڈھے کے گوشت کی کڑائی مع تندوری روٹیوں کے مل سکتی ہے۔ کھانے کے معاملے میں ہمارے کے پی کا مقابلہ پوری دنیا نہیں کر سکتی سوائے دبئی، شہر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے ۔ پشاوری کھانے کے عادی لوگوں کو باہر ملکوں میں بھوک سے لاغر ہونے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ 

ایک دن قدیم شہر سے باہر نکل کر "بیار شہر" کے طعام گھروں کا جائزہ لینا چاہا۔ ایک جگہہ ہمیں "انڈین کیوزین" کا بورڈ نظر آیا تو ہماری اشتہا تیز ہوگئی۔ ہم بورڈ پڑھنے والے ہی تھے کہ ایک کالا کلوٹا جوان اردو بولتے ہوئے ہمیں خوش آمدید کہا۔ ہم نے اردو میں بات کرنے اور ہندوستانی خوراک کا مزہ اڑانے کے خیال میں سرشار رستوران کے اندر گھس گئے۔ایک تہہ خانے میں ہمیں لے جا بٹھایا گیا ہے۔ کھانے کا پوچھا تو وہی کباب اور تیکے کی موجودگی کا بتا دیا۔ ہم نے آرڈر دیا۔ کھانا لایا گیا، ہم نے کھایا کوئی مزہ نہیں پایا۔ بل آیا تو اندرونی شہر کے بل سے ایک پائی کم نہیں تھا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ آئیندہ اپنا بندوبست اپنے لنگر ہی میں کریں گے۔ جب ہماری واپسی کو دو دن رہ گئے تو ڈاکٹر زبیدہ کو قریب ہی ایک ایسی دکان ملی جہاں ایک ترک بھائی اپنے گھر میں کھانا پکوا کر دکان میں لا کر فروخت کرتا تھا۔ وہاں سے جب تندور والی روٹی کے ساتھ گھر کا کباب دستیاب ہوا تو منہ کو انتہائی لذیذ لگا کیونکہ ہم پشاور کی تندوری روٹی اور کباب کو ترس گئے تھے۔ دام بھی مناسب تھا اس لیے ہم نے باقی کے دو دن وہی کباب روٹی کھائی۔ ان کا کباب قابل تعریف حد تک لذیذ تھا۔ اس کا ذائقہ اب تک منہ میں موجود  ہے۔ 

جاری ہے

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی