نقوش حیات


نقوش حیات (آپ بیتی)

محترم سید مشتاق حسین شاہ بخاری پرنسپل(ریٹائرڈ) کی طرف سے تخفے میں ملی ان کی آپ بیتی کا مطالعہ کرکے بہت محظوظ ہوا۔ محض لطف ہی نہیں اٹھایا بلکہ میرے علم میں بھی بہت بڑا اضافہ ہوا۔ شاہ صاحب کا بے لاگ اظہار خیال اور شگفتہ انداز بیان نے اس وقت تک مجھے کتاب سے نظر ہٹانے نہیں دیا جب تک کہ کتاب پوری نہیں پڑھی۔ کتاب پر اپنی واجبی اردو میں رائے دینے سے پہلے شاہ موصوف کا مختصر تعارف ہو جائے۔
سید مشتاق حسین بخاری حسینی سادات کی بخاری شاخ سے تعلق رکھتے ہیں جن کے جد اعلیٰ پیر سید محمود المعروف پیر سباک رح وہاں سے ہجرت کرکے نوشہرہ میں سکونت اختیار کی تھی۔ پیر سباک کا گاؤں انہوں نے آباد کیا تھا اور گاؤں کا نام  ان کے نام سے منسوب ہوا۔ سکھوں کے ساتھ لڑائی کے نتیجے میں ان کی اولاد کو پیر سباک سے بھی ہجرت کرنا پڑی۔ جس کے نتیجے میں مشتاق حسین کے دادا کا دادا اٹک کے لنگر نامی گاؤں میں بس گئے اور خاندان کے بعض دوسرے افراد  تحصیل فتح جنگ کے موقع گکھڑ، سرائے نو رنگ، لکی مروت کے تاجہ زئی، اور خواجہ خیل، میاں والی کےتبی سر اور کوہاٹ کے موضع شویکی کی طرف حجرت کر گئے ۔ مشتاق صاحب کا ننیھال گھکڑ میں تھا۔ ان کی نانا کی وفات کے بعد گاؤں والوں کی درخواست پر ان کے والد پیر سید محمد علی شاہ گکھڑ منتقل ہوگئے۔ مشتاق صاحب  وہیں پیدا ہوئے ۔ پرائمری تعلیم اپنی والدہ ماجدہ ، والد محترم اور اپنے گاؤں کے پرائمری اسکول میں پائی جب کی چھٹی سے دسویں تک ہائی اسکول باہتر کے طالب علم رہے۔  بی اے ڈگری کالج اٹک سے کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم کے مضمون میں ماسٹر کیا اور پھر محکمہء تعلیم (سابق) این ڈبلیو ایف پی، موجودہ خیبر پختونخواہ میں استاد بھرتی ہوئے اور پشاور صدر میں مستقل طور پر سکونت اختیار کی۔ اپنی محنت اور  خدا داد صلاحیتوں کی بدولت ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے 37 سال درس و تدریس کے پیشے کے ساتھ وابستہ رہنے کے بعد 2007 میں سینٹینیل ماڈل ہائی اسکول پشاور صدر کے پرنسپل کی حیثیت سے ملازمت سے پنشن پائی۔ اس کے بعد اپنا ذاتی اسکول الفیصل ہائی  اسکول کے نام سے قائم کرکے درس و تدریس کا مقدس کام جاری رکھا جو ہنوز جاری ہے۔
یہاں یہ بھی بتاتا جاؤں کہ شاہ صاحب تدریسی اور انتظامی امور سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اساتذہ تنظیمات میں بھی سرگرم رہے۔ ان سرگرمیوں کے دوران میری ان سے ملاقاتیں ہوتی رہی تھیں۔ ایک رسالہ ایجوکیٹر کے نام سے جاری کرکے اس کی ادارت بھی کرتے رہے۔ بین الاقوامی اساتذہ تنظیموں کے بھی ممبر رہے۔ آج بھی ماشاء اللہ فعال زندگی گزار رہے ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ تصنیف و تالیف کے ساتھ سیاست میں بھی کردار ادا کر رہے ہیں۔ آج کل تحریک نفاذ اردو کے صوبائی سربراہ ہیں۔ ہمارا دربارہ ملن بھی اس تحریک کی بدولت ہوئی جب میں مشتاق صاحب کی دعوت پر تحریک کا حصہ بنا۔
شاہ صاحب کی آپ بیتی " نقوش حیات" مجھے اس لیے بہت دلچسپ لگی ہے کہ شاہ صاحب بچپن سے جوانی تک دیہات میں رہے اور اس زندگی کا چھوٹے سے چھوٹا جزو بھی ان کے حافظے میں گویا نقش حجر بن گیا ہے۔ انہوں نے اس زمانے کی تہذیب و تمدن کا ہر نقش زیب قرطاس کیا ہے۔ مجھے شاہ صاحب کے حافظے اور ان کی جزئیات نگاری پر رشک ہونے لگا۔ ہمارے چترال کے ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب کو بھی اللہ تعالیٰ نے قابل رشک قوت حافظ سے نوازا ہے۔
نقوش حیات پڑھتے ہوئے مجھے ایسا لگا کہ میں اپنے سکونتی اور پیدائشی  گاؤنوں بالائی چترال کی وادی یارخون کے بانگ اور مستوج کے پرکوسپ میں ہوں اور سن پچاس اور ساٹھ کے عشرے ہیں۔ گویا دیہاتی زندگی پنجاب کی ہو یا سندھ، بلوچستان اور چترال کی بہت ساری قدر مشترک رکھتی ہیں۔ میں پنجاب کی دیہاتی زندگی اور چترال کی دیہاتی زندگی میں گہری مماثلت پائی۔ میں اور شاہ صاحب ہمعصر ہیں۔ اس دور میں شاہ صاحب کو بھی روانہ اسکول آنے جانے میں بارہ تیرہ کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا تھا اور مجھے بھی جماعت اول سے لے کر آٹھویں تک روانہ آٹھ نو کلومیٹر کی مسافت طے کرنا پڑتی تھی۔ شاہ صاحب اپنی کتابیں اور تختی ایک گز کپڑے میں باندھ کر لے جاتے تھے جب کہ ہم اس کے لیے پرانی چترالی ٹوپی سے بنا جزدان کاندھے پر لٹکائے جاتے تھے۔ شاہ صاحب کو پرائمری سے لے کر دسویں تک اچھے پڑے لکھے اساتذہ میسر تھے جب کہ ہمارے اساتذہ پرائمری یا مڈل پاس تھے۔شاہ صاحب کو ان کے سارے اساتذہ کی سیرتیں، ان کے طرز تدریس اور قابلیت حرف بحرف یاد ہیں۔ ان تذکرہ کرکے حق شاگردی ادا کر دیا ہے جب کہ مجھ سے بہت سارا بھول چکا ہے۔
شاہ بخاری صاحب نے اپنے گاؤں کا پورا جغرافیہ بیان کیا ہے اور گاؤں کے ہنرمندوں کی پوری تاریخ لکھی ہے جن میں کسان،جولاہے، موچی، لوہار، ترکھان، نائی، پینجا، پسنہارے، تیلی، دھوبی وغیرہ کا تفصیلی تذکرہ کیا یے۔ ہمارے ہاں بھی چند ایک پیشہ ور ہنرمند ہوا کرتے تھے جو رفتہ رفتہ معدوم ہوگئے۔ اپنے بچپن کے دوستوں اور کھیل تماشوں کا ذکر بھی دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے ۔
مشتاق حسین صاحب نے ہمارے قائد اعظم محمد علی جناح کی روحانی زندگی کے بارے میں حیران کن سچے واقعات لکھ ڈالے ہیں جو شاید بعض لوگوں کو ہضم نہ ہوں۔ اسی طرح اپنی زندگی میں انہیں پیش آنے والے مافوق الفطرت واقعات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ ان کی تفصیل میں جانا اس لیے ضروری نہیں سمجھتا کہ شنیدہ کئ بود مانند دیدہ کے مصداق یہ کتاب خود پڑھنے، حظ اٹھانے اور اپنے علم میں اضافہ کرنے کی چیز ہے۔ اللہ پاک مشتاق صاحب کی صحت کے ساتھ زور قلم کو زندہ و تابندہ رکھے!
 

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی