چلو اذربئیجان ۔۔۔۔5

   چلو اذربائیجان۔۔۔۔5

       

یچَری شہر:  باکو شہر کے قدیم حصے کو ایچری شہر کہتےس ہیں یعنی اندرونی شہر۔ اس میں مکان یا ہوٹل مہنگے ہیں کیونکہ آثار قدیمہ سے شعف رکھنے والے سیاحوں کی دلچسپی کا تقریباً سارا سامان اس شہر کے اندر موجود ہے۔ اس شہر کے اندر بارھویں صدی سے لے کر پندرھویں صدی کی تعمیرات محفوظ ہیں جن میں شیروان شاہوں کا محل، مسجد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میڈن ٹاور زیادہ مشہور ہیں۔ محققین کے مطابق یہ شہر بارھویں صدی میں بسایا گیا تھا جب کہ بعض مورخین کا خیال ہے کہ یہاں تعمیرات کا آغاز چھٹی اور ساتویں صدی سے ہوا تھا۔ 

پرانا شہر کا بیشتر حصہ اب بھی اپنی اصلی حالت میں ہے۔ وہی عمارتیں، تنگ اور بھول بھلیوں والی گلیاں، نیچے  ترشے ہوئے ایک ہی سائز کے کالے پھتروں کا منقش فرش، ہر چیز اپنی قدامت کی گواہی دیتی ہے اور اپنے کاریگروں کی یاد تازہ کرتی ہے۔ تین اطراف  شہر پناہ کی اونچی دیوار ، اپنی حفاظتی برجیوں اور دروازوں کے ساتھ استادہ ہے اور دور سے دعوت نظارہ دیتی ہے۔ سمندر کی طرف شہر کی دیوار گرائی گئی ہے اور ایک کشادہ شاہراہ بنائی گئی ہے۔ اس شاہراہ اور کیسپئین سمندر کے کنارے کے ساتھ کوئی ساڑھے تین کلومیٹر لمبا خوبصورت پارک تعمیر کیا گیا ہے۔ اس پارک کو زیر زمین گزرگاہوں کے ذریعے شہر سے جوڑ دیا گیا ہے۔ اس پارک کو منی وینس ( وینس خورد) کہتے ہیں ۔ 

یہ شہر ایک قلعے کی طرح ہے جس کی وسعت مشرق سے مغرب اور جنوب سے شمال زیادہ سے زیادہ دس پندرہ منٹ پیدل کی ہے البتہ مکانات کی تعداد ہزاروں تک ہے۔ اس کے وسط سے گزرنے والی سڑکیں اتنی کھلی ہیں کی دو گاڑیاں بیک وقت گزر سکیں۔  یہ شہر قدرتی طور پر ناہموار زمین بلکہ ٹیلے کے ڈھلانوں پر آباد ہے جس میں کئی چڑھائیاں اور اترائیاں ہیں۔ ہر ہر گلی، ہر عمارت کئی ثقافتوں کا رنگ پیش کرتی ہے جس میں قدیم قفقازی، عرب، ایرانی، یونانی اور روسی ثقافتوں کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔  شہر کے اندر گھومنے کے لیے موٹے تلوے کے بوٹ پہننا ضروری ہے ورنہ پھتر کے فرش سے رگڑتے رگڑتے پاؤں میں چھالے پڑ سکتے ہیں۔

ہماری رہائش بھی نئی شاہراہ کے قریب قدیم شہر کے وسط میں ایک تنگ گلی کے اندر پرانے مکان  میں تھی جس کے اندر پانج چھ سیڑھیاں چڑھنا پڑتا تھا۔ اس گلی کا نام آصف ذین علی کوچہسی ہے۔ ہمارے کوچے سے نکلتے ہی ایک کھلی جگہہ ہے جس کے تین اطراف میں دکانیں، چائے خانے اور رہائشی مکانات کے علاؤہ ایک پرانی مسجد نمایاں ہے جس کے باہر کوئی کتبہ نظر نہیں آیا۔  ایک مکعب نما عمارت ہے جس کی شمالی دیوار کے کونے میں چھوٹا دروازہ لگا ہوا ہے۔ دروازے کے  باہر ایک  جوڑی چپل دیکھی اور دروازے کے اندر داخل ہوگیا تو مسجد کے دو اطراف چھوٹے چھوٹے حجرے پائے۔ ایک حجرے میں دو بندے گفتگو میں مصروف تھے۔ مسجد کا نام پوچھا تو مسجد علی ع بتایا گیا۔ پتہ چلا کہ مسجد اج بھی نماز کے لیے استعمال میں ہے۔ اس کی تعمیر کا سن معلوم نہ ہوسکا۔ مسجد کے سامنے دو رویہ سڑک شاہراہ عام کی طرف کھلی ہے۔ یہاں اندر آنے والی گاڑیوں سے دو منت ٹیکس کیا جاتا ہے۔ یہاں سے مشرق کی طرف  کوئی سو قدم کے فاصلے پر جمعہ مسجد، مسجد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میڈن ٹاور کھڑے ہیں۔ مینار کے ساتھ قدیم مسجد اور گرجا گھر کے کھنڈرات ہیں۔ پھر سات آٹھ منٹ کی مسافت پر شہر قدیم  کے جڑواں دروازے موجود ہیں جہاں گاڑیوں سے باقاعدہ ٹیکس لیا جاتا ہے۔ مغرب کی طرف کوئی چار پانج منٹ چل کر مغربی دروازے تک پہنچا جا سکتا ہے۔ مغربی دیوار کے ساتھ سب سے اونچی جگہے پر شروان شاہوں کا محل استادہ ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی