کھو سماج، رشتے اور موسیقی

چترال کی ثقافت کو کھو ثقافت کہا جاتا ہے۔ زبان اس کی کھوار ہے یعنی کھو لوگوں کی بولی/ زبان۔ لفظ کھو کا ماخذ آج تک پوری وضاحت کا محتاج ہے۔ میں
 نے اپنے ایک مقالے میں جس کی تصنیف میرے ایک لائق شاگرد علی شیر نے میرا ساتھ مل کر کی تھی، لفظ "کھو" کی وجہ تسمیہ غاروں میں بسنے والے بتایا تھا۔ یہ مقالہ غالباََ 2009 میں اسلام میں منعقدہ ایک سیمینار میں پیش کیا گیا تھا۔ ہماری تحقیق کے مطابق لفظ"کھو" سنسکرت ہے جس کے معنی غار کے ہے۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ زمانہ قدیم کے چترالی غاروں میں رہتے تھے کیونکہ وہ خانہ بدوش تھے۔ اسی نسبت سے اس علاقے کے باشندوں کو کھو کہا جانے لگا۔ چترال کی سرزمین پر مستقل رہائش رکھنے کے بعد بھی  چترال کے لوگ بیرونی حملہ آوروں اور ڈکیتیوں سے بچنے کے لیے پہاڑوں کے اندر تنگ گھاٹیوں اور غاروں میں پناہ گزین ہوتے تھے۔ اس لیے یہ بات قرین قیاس ہے کہ یہ نام اہل چترال کی قدیم جائے رہائش یا جائے پناہ سے تعلق رکھتا ہے۔ چترال کی بیشتر آبادی نے شمال اور شمال مشرق سے اس وادی میں آکر رہائش اختیار کی تھی۔ ان علاقوں میں کھو نام نہیں ملتا ہے۔

کھو ثقافت کی چند خصوصیات ایسی ہیں جو دوسری ثقافتوں میں نہیں ہیں۔ ان میں سب سے منفرد خاصیت رشتوں کا تقدس ہے۔ کھو اپنے تایا اور چچا کو بھی باپ کا درجہ دیتے ہیں اور تائی اور چچی کو ماں کا مقام دیتے ہیں۔ جیسا کہ لوٹ تت، څیق تت۔ لوٹ نن، څیق نن  یعنی بڑے ابو، چھوٹے ابو۔ بڑی ماں، چھوٹی ماں۔ اسی طرح پھوپی اور خالہ بھی ماں کا مقام رکھتی ہیں گو کہ ان کو بیچی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح تایا زاد اور چچا زاد کو سگے بہن بھائی کا درجہ حاصل رہا ہے۔ ان کا آپس میں نکاح کا تصور نہیں ہے، البتہ پھوپی زاد اور خالہ زاد سے ازدواجی زندگی جوڑنے کی روایت موجود ہے۔  چچازادوں میں سگے بہن بھائی کے تصور کی پختگی شاید اس سبب سے بھی ہو کہ کھو بھائی اس وقت تک ایک گھر میں ہی رہتے تھے جب تک گھرانے کے افراد کی تعداد اتنی بڑھ نہ جائے کہ ان کے لیے ایک باورچی خانے میں کھانا بنانا مشکل ہو جائے اور سونے کے لیے رہائشی عمارت میں گنجائش کم پڑ جائے۔ نصف صدی پہلے تک عموماً اپنے بچوں کی شادیاں ہونے تک مشترکہ گھر میں رہتے تھے۔ آج کل یہ روایت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ تایا زادوں اور چچا زادوں کے بارے قدیم تصور آہستہ آہستہ بدل رہا ہے اور چچازاد آپس میں شادیاں کرنے لگے ہیں کیونکہ دوسری ثقافتوں سے آنے والے افراد کا اثر کھو سماج کی روایات بدل رہا ہے۔ 

کھو ثقافت کی دوسری انفرادی خاصیت اس کی خواتین کی گلوکاری اور رقص سے متعلق ہے۔ کھو خواتین مردوں کی محافل میں گیت نہیں گاتیں اور نہ رقص کرتی ہیں البتہ مخصوص نشستوں پر بیٹھ کر مرد گلوکاروں اور رقاصوں کی فنکاری دیکھنے پر پابندی نہیں تھی۔  دور حاضرہ میں چند چترالی لڑکیوں کی ویڈیوز یو ٹیوب پر موجود ہیں۔ان بچیوں کی گلوکاری کو چترال کے لوگ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہیں۔ ان پر شدید تنقید ہو رہی ہے۔ قدیم زمانے میں خواتین کے رقص و سرود کی نجی محفلیں ہوا کرتی تھیں۔ موسیقی کی یہ محفلیں بچوں کی پیدائش پر "ݰُونگو نِشِک" کے نام سے اور اونی دستکاریوں کے لیے امداد باہمی کے اکھٹ یعنی ،"گیئو" کے مواقع پر جمتی تھیں۔ ان نجی نشستوں میں لڑکوں اور مردوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ سنا ہے کہ ان دنوں شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی خواتین موسیقی کا پروگرام کرتی ہیں، البتہ انتہائی پردے میں جس کی ویڈیو بنانے کی بھی سختی سے ممانعت ہے۔اسی طرح بچیوں کا فٹ بال یا کرکٹ کھیلنے کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں گو کہ بچیاں اس کی پرواہ بہت کم کرتی ہیں۔ 
مجھے یاد ہے کہ بچپن  میں ہم بچے اور بچیاں مل کر چند کھیلیں کھیلا کرتے تھے جن میں "شپیر کیڑی"، " دݰمن گوردوغ"، "اوغ جاڑ" ، "کھوئے پیڅھِک"، کھوشت بِک / کھوشتنابلی"  وغیرہ شامل تھے البتہ لڑکیوں کا فٹ بال یا "بمپو غار" کھیلتے میں نے کبھی نہیں دیکھا ہے۔ پردے کے پیچھے خواتین بہت ساری تفریحات سے محظوظ ہوتی ہیں جو ان کی ذہنی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چترالی عورتیں کھو سماج کی روایت کے خلاف کھلے میدان میں اترتے کی کھلی بغاوت کا ارتکاب کب کرتی  ہیں اور ہم مردوں کا رد عمل کیا ہوگا؟ خدا کرے کہ ہمارا تصادم نہ ہو۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ خواتین اپنی باپردہ محافل جاری رکھیں تاکہ ہمیں ان کے خلاف شمشیر بدست ہونے کا موقع نہ ملے۔

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ