آہ بیٹا سمیع!

آہ بیٹا سمیع!
 مانا کہ جانا ہے ہم سب کو ایک دن
 منہ دکھانا ہے اپنے رب کو ایک دن
 اتنی جلدی جانے کی ٹھانی کیوں؟
 تنہائی میں فراق شب کو ایک دن
 پیاروں کے سروں پر کوہ غم ٹوٹا 
 دوڑا جب آبی کرتب کو ایک دن 
 شوق پیراکی تھا یا دماغ کا جنون!
 رکھا خاطر پھر بھی ادب کو ایک دن
 چاندنی رات، سیر دریا کا شوق
 لے ڈوبا ہے حسن عرب کو ایک دن
 باد خزاں کا کوئی بھروسا نہیں ہے
 مسل کر رکھ دے گل عجب کو ایک دن
 تیری موت کا معمہ دل کو کھا رہا ہے
 شاید منظور تھا مرے رب کو ایک دن
 
 
 میرا پیارا سا معصوم ، درویش صفت ، تابعدار بھتیجا سمیع اللہ خان ابن رحمت ولی خان 14 جولائی سال رواں کو ہمیں داغ مفارقت دے گیا۔ انا للہ واناالیہ راجعون ۔
 بہ ظاہر اس کی موت خود کشی سے واقع ہوئی لیکن حالات واقعات بتا رہے ہیں کہ اس نے اپنی جان قصداً نہیں لی بلکہ حادثہ کی وجہ سے وہ اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی ۔ وہ عرصہ تین سالوں سے نفسیاتی بیماری کا شکار رہا تھا تاہم ایک اعلے معالج اس کا علاج کر رہا تھا اور وہ 99 فیصد صحت مند ایک نارمل انسان کی سی زندگی گزار رہا تھا۔ اس میں کسی قسم کی ذہنی پریشانی نظر نہیں آ رہی تھی۔ وہ اپنے والد کی دکان درست طور پر چلا رہا تھا۔ اپنے رشتوں سے تعلق بہتر طور پر نبھا رہا تھا۔ اپنے تایا زاد ، چچازاد اور خالہ زاد بھائی بہنوں اور ان کے بچوں کے ساتھ غیر معمولی پیار کرتا تھا ۔ ہر راہگیر کو بغیر کچھ کھلائے پلائے گزرنے نہیں دیتا تھا۔ ہر روز دکان بند کرنے کے بعد اپنے چچاؤں کے گھروں میں جاتا اور اپنے چچازادوں کے بچوں میں مٹھائیاں اور بسکٹ تقسیم کیا کرتا تھا۔ اپنی بہنوں کا روز حال احوال پوچھا کرتا اور ضرورت کی اشیاء ان کو پہنچایا کرتا تھا۔اگرچہ وہ سب کے ساتھ پیار و محبت رکھتا تھا البتہ اپنے والد کے ساتھ بے تحاشا محبت کرتا تھا۔ اس کے نزدیک اس کے والد سے بڑھ کر عظیم شخصیت کوئی نہیں تھی۔ "میرا دادا گریٹ ہیں" اس کا تکیہ کلام سا ہو گیا تھا. 
 جب اس نے میری تصنیف " چارغیریو لال" پڑھی تو اپنے والد کے بابت میری تحریر پڑھ کر کافی ناراض ہوا تھا کیونکہ میں نے ان کے والد کی جوانی کی کچھ مستیاں لکھ ڈالی تھیں۔ اس نے اپنی بھابی (زوجہ زاہداللہ خان) کے سامنے اس کا ذکر کرکے کہا تھا کہ "دیکھو بھابی! میں کتاب لکھ کر اپنے والد کی اوصاف بیان کروں گا اور پرنسپل دادا جان کو غلط ثابت کروں گا"
 سمیع اللہ خان کی وفات پر علاقے کے جن لوگوں نے ہم سے تعزیت کرنے کے لیے تشریف لائے ان میں کوئی ایسا نہیں تھا جس نے آنسو نہ بہایا ہو اور اس بچے کی تعریف نہ کی ہو۔ ہمیں اس کے اتنے وسیع تعلقات کا علم بالکل بھی نہیں تھا۔
 حیرانگی اس پر ہے کہ آیسے نیک، رحم دل ، مہذب، شریف، تعلیم یافتہ اور والدین سے کے کر بہن بھائیوں اور عزیزواقارب کے لاڈلے بچے کو وہ کونسی تکلیف پیش آئی کہ اس نے اپنی جان لے لی؟ آج میرے اس عظیم الشان بچے کو گزرے  گیارہ دن گزر چکے ہیں اور میں اس عرصے کے دوران اس کی موت کی وجوہات پر غور کر رہا ہوں اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچ رہا۔
 اس نے اپنی موت سے دس بارہ گھنٹے پہلے اپنے موبائل فون پر ایک پیغام لکھا اور محفوظ کر لیا تھا جس کا اس کی وفات کے بعد ہمیں پتہ چلا۔ اس نے لکھا تھا" میں دریا میں پیراکی کے لیے جا رہا ہوں ، خدا نخواستہ دریا برد ہوگیا تو مجھے تلاش کریں"۔
 چاندنی رات تھی اور رات گیارہ بجے وہ اپنے بستر سے چپکے سے اٹھ کر باہر نکل گیا تھا۔ جب اس کے بابا کو پتہ چلا کہ بچہ اپنے بستر پر نہیں ہے تو اس نے فون کیا۔ جواب میں سمیع نے اپنے والد کو بتایا تھا کہ " میں اپنے کزن کے ساتھ مچھلی پکڑنے جا رہا ہوں پریشان نہ ہوں۔ میں بچہ نہیں ہوں۔ جلد واپس آ جاؤں گا" والد نے اطمینان کر لیا اور سو گیا کیونکہ عموماً بچے چاندنی رات کو مچھلی کا شکار کھیلنے جایا کرتے تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ کسی کزن کے ساتھ اس نے اسی رات کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔
 صبح صادق کے وقت اس کا والد بیدار ہوا تو بیٹے کو بستر پر نہیں پایا۔ اس نے فوراً اس کا فون ملایا۔ جواب نہیں آیا۔ فورآ اس کی تلاش میں نکلا۔ فون لگائے رکھا اور اس کے فون تک پہنچ گیا جو اس کی دکان کے سامنے سڑک کی دوسری طرف پھتر کے اوپر اس کی جیکٹ کے ساتھ ملا۔ اسے یقین ہوگیا کہ اس کا بیٹا غرق آب ہو گیا ہے۔ صبح نو بجے کے قریب اس کی لاش گھر سے دو کلومیٹر نیچے دریائے یارخون کے اس پار، اورکن گاؤں کے سامنے دریا کے کنارے پائی گئی۔ لاش کے معائنے سے صاف ظاہر ہوا کہ بچہ تیرتے ہوئے دو کلومیٹر تک گیا اور بڑے دریا کو غبور کرکے اس کی چھوٹی سی شاخ کے درمیان خشک زمین تک رسائی پاکر کروٹ کے بل لیٹے ہوئے وفات پاگیا تھا۔ اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ سمیع اللہ خان نے خودکشی نہیں کی بلکہ پیراکی کے شوق نے اس کی جان لے لی جو شاید اس کے مقدر میں لکھا گیا تھا۔
 اللہ پاک مرحوم بچے کو روحانی سکون نصیب فرمائے اور اس کے والدین اور پیاروں کو صبرِ جمیل عطا فرمائے آمین یا رب العالمین!
 
 
 
 

Comments

Popular posts from this blog

شرط بزرگی

باران رحمت کی زحمت

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ