چترال ‏میں ‏منی ‏ہائیڈرو ‏پاور ‏منصوبوں ‏کا ‏مستقبل

چترال میں درجنوں منی ہائیڈرو پاور (MHP) پروجیکٹس متعدد دیہاتی گھرانوں کو بجلی مہیا کر رہے ہیں۔ ان منصوبوں کا آغاز آغا خان رول سپورٹ پروگرام (AKRSP) نے کیا۔ بعد ازاں سرحد رورل سپورٹ پروگرام ( SRSP) اور صوبائی حکومت نے بھی اس ماڈل پر چھوٹے چھوٹے پن بجلی گھروں پر کام کیا اور کر رہےہیں۔ اگر ان چھوٹے منصوبوں کے ذریعے بجلی مہیا کرنے کی کوشش نہ ہوتی تو آج اکیسویں صدی کے ربع اول کے آخر میں بھی ہماری اولاد بجلی کی روشنی سے نابلد ہی رہتی۔
ہمارے ملک کے دور دراز پہاڑی علاقوں کے باسیوں کا مستقبل  توانائی کی ان چھوٹی چھوٹی یونٹوں سے وابستہ ہے۔ اگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو ان ایم ایچ پیز کے بننے کے بعد صارفین کی حالات زندگی میں ترقی نمایاں نظر آئے گی۔ جگہ جگہ لکڑی، لوہے، آٹا پیسنے اور ویلڈنگ کی مشینیں کام کر رہی ہیں۔ گھریلو استعمال کی مشینوں نے خواتین پر کام کا بوجھ پچاس فیصد کم کر دیا ہے۔ اسی طرح ایندھن کے لیے جنگلات کی کٹائی کم ہو گئی ہے۔ ڈیزل انجنوں کا استعمال متروک ہو گیا ہے جس سے مضر صحت گیسوں کا اخراج گھٹ گیا ہے۔ نتیجتاً موسم پرخوشگوار اثرات مرتب ہوں رہے ہیں۔ سکول اور کالجوں کے بچوں کے پڑھائی کے اوقات بڑھ گئے ہیں جس کا ان کے تعلیمی معیار پر اچھا اثر پڑ رہا ہے۔

اب اہم سوال ان بجلی گھروں کی دیکھ بھال کا ہے۔ اے کے آر ایس پی نے دیہی تنظیمات کے ذریعے 25, 40 اور 50 کے وی پلانٹوں کو چلانے کا تجربہ کیا جو عملاً ناکام رہا۔ اس لیے 300 سے لے کر 800 کے وی کے ایم ایچ پیز کو چلانے کے لیے پبلک یوٹیلیٹی کمپنیاں بنائی گئیں جو اس وقت عوام کو بجلی کی ترسیل اور بجلی گھروں کی دیکھ بال کی ذمے داریاں اٹھا رہی ہیں۔ بدقسمتی سے عوام میں کچھ ایسے  عناصر بھی موجود ہیں جو مقامی کمپنیوں کے ممبرز ہونے کےباوجود کمپنیوں اور پاور پلانٹس کی ملکیت قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ایسے لوگ سادہ لوح عوام کو اکسا کر منصوبوں کو برباد کرنے کی ناپاک کوششیں کرتے ہیں جس سے عوامی اشتراکی سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور مقامی معیشت کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ یوٹیلیٹی کمپنیوں کے ممبران کو چاہیے کہ وہ اپنی کمپنیوں، پاور ہاؤسز اور ان سے جڑے سامان کو اپنا اجتماعی اثاثہ سمجھ کر انکی حفاظت اور ترقی میں انفرادی اور اجتماعی کردار ادا  کریں تاکہ یہ عوامی منصوبے اپنے اہداف حاصل کر پائیں۔
 دوسرا اہم مسلہ یہ ہے کہ صارفین  بجلی کا استعمال بہت کم کر رہے ہیں۔ بجلی کی آمدنی دیکھ بال کے اخراجات پوری نہیں کر پا رہی ہے جس سے کمپنیاں خسارے میں جا رہی ہیں۔
ان مسائل کا واحد حل منی گریڈ اسٹیشنوں کا قیام ہی نظر آتا ہے تاکہ زائد بجلی نیشنل گریڈ میں ڈال کر آمدنی بڑھائی جا سکے۔ جب تک یہ منی پاور ہاؤسز خودکفیل نہیں ہو جاتے ان کا مستقبل غیر یقینی رہے گا۔ صوبائی حکومت کے توانائی کا شعبہ ،اے کے آر ایس پی، ایس آر ایس پی اور یوٹیلیٹی کمپنیوں کو ان خطوط پر سوچنا اور عمل کرنا ہوگا تاکہ توانائی کے معاملے میں علاقے کا مستقبل محفوظ رہ سکے۔

Comments

Popular posts from this blog

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ

آذربائجان ۔۔۔۔11