ضلع ‏غیرز۔۔۔3


لالک جان شہید پبلک سکول میں ہی ہماری ملاقات ہوندور کی ایک معزز شخصیت سے ہوئی۔ خلیفہ سلطان پناہ، چوینچ مستوج کے شہزادہ بہرام انسپکٹر (ر) کے بہنوئی نکلے۔ وہ گھر میں ہماری ضیافت کے ساتھ ساتھ ہمیں وادئ یسین کی اسمعیلی تاریخ اور اپنے خاندان کے شجرہ نسب سے اگاہ کرنا چاہتے تھے لیکن ڈاکٹر فیض امان صاحب نے انہیں یہاں بلایا تاکہ ہمارا وقت بچ جائے۔ ہمیں ان کے گھر جاکر ان کی اہلیہ سے ملنا ضروری تھا کیونکہ وہ میرے دوست اور کلاس فیلو شہزادہ بہرام  کی چچا زاد بہن ہیں۔  ان کے گھر نہ جانے کا مجھے افسوس رہا۔ آرمی اسکول اینڈ کالج کی لائبریری میں ہماری نشست ہوئی۔ سلطان پناہ کے مطابق ان کے والد رحیم پناہ گلگت بلتستان کے چیف سکرٹری رہ چکے تھے۔ ان کے  پڑ دادا ملا شکرت خلیفہ نے اس وادی میں اسماعیلی چراغ روشن کی رسم کی ابتدا کی تھی۔ اسی خاندان کے طومان بخدور اتالیق رہ چکے تھے۔ سلطان پناہ کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کے بزرگ مذہبی پیشوائی کے ساتھ ساتھ حاکمان یسین کے اتالیقی کے عہدے پر فائز رہ چکے تھے۔ سلطان پناہ کے ساتھ تفصیلی گفتگو نہ ہوسکی کیونکہ ہماری خواتین اسکول کےباہر گاڑھی کے اندر ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔
ہونددور سے ہم واپس ہوئے۔ برانداس میں پیران برانداس اور ان میں کسی ایک پیر کے مسخر غلام مرزا چکٹ جن کے بارے میں معلومات حاصل کرنا بھی وادئ ویشرگوم کی سیاحت کا ایک سبب تھا۔
چترال میں مرزا کچٹ یا چکٹ کے بارے میں کہانی مشہور ہے کہ وہ اپنے آقا پیر کی خوہر کے گھر واقع مولکھو چترال آکر غلہ پسوائی کا کام انجام دیا کرتا تھا۔ مرزا کچٹ برانداس کے پیروں میں کسی ایک کا مسخر غلام تھا جو محیر العقول کام آنکھ جھپکتے ہی انجام دیا کرتا تھا۔ وہ اپنے آقا کے سوا کسی کو نظر نہیں آتا تھا۔
یہاں مجھے مولکھو چترال کے نامور دانشور، ماہر تعلیم مکرم شاہ صاحب کی زبانی ایک واقعہ کا بیان یاد آ رہا ہے جسے لکھنے پر مجبور ہوں۔ مکرم شاہ صاحب چند سال پہلے گلگت گھومنے آئے تھے۔ غالباََ اے کے آر ایس پی نے مقامی امدادی تنظیمات کے رضاکار چیرمینوں کو گلگت بلتستان دکھانے کے گیا تھا۔ انہوں نے اشکومن کی سیر کے دوران مرحوم پیر کرم علی شاہ کے سلام کے لیے ان کے گھر واقع چٹورکھن گئے۔ پیر کے ساتھ ملاقات اور ان کے ساتھ چائے پینے کے بعد جب رخصت ہونے لگے تو پیر انہیں الوداع کہنے کے لیے ان کے ساتھ باہر نکل آئے۔ وداعی کلمات کہنے کے دوران مکرم شاہ صاحب کے ہمسفروں میں سے ایک نے پیر سے کہا، " پیر صاحب! آپ نے مرزا کچٹ کے بارے میں ہمیں نہیں بتایا" تو پیر مرحوم نے برجستہ  جواب دیا، " اے برار! ہتے زمانہ پیر، پیر اوشوئے مرزا کچٹ، مرزا کچٹ اوشوئے، ہنُن زمانا آوا دی مرزا کچٹ تو دی مرزا کچٹ" (اے بھائی! پہلے زمانے میں پیر، پیر تھا اور مرزا کچٹ، مرزا کچٹ تھا۔ آج میں بھی مرزا کچٹ ہوں اور تم بھی)۔ نامناسب موقع پر سوال کا کیا مناسب جواب تھا پیر مرحوم کا!!
ہم بھی پیرکرم علی شاہ کے اجداد کے اصل گاؤں برانداس میں اترے۔ ڈاکٹر فیض امان صاحب اور ان کی اہلیہ یہاں تک ہماری رہنمائی کی۔ اس گاؤں میں ایک قبرستان کے اندر مشہور شاعر گل اعظم خان گل کی قبر موجود ہونے کے بارے کسی نے بتایا تھا۔  یہاں پر ہماری ملاقات پیر کے خوہر زادہ اظہر احمد خوشوقتے سے ہوئی۔ اس نے بتایا کہ اس کی شناخت ممکن نہیں البتہ یہاں موجود قبروں میں سے کوئی ایک ہوگی۔ ہم نے فاتحہ پڑھی اور مرحوم پیروں کے قبور بھی دیکھیں اور فاتحہ خوانی کی یہاں آسودہ خاک اولین پیر کا نام میجر فیض امان نے شاہ کلان ثانی بتایا جو بدخشان سے ہجرت کرکے یہاں آ بسے تھے۔ ان کی اولاد میں شاہ سلطان اور سید فضل شاہ پیر گزرے ہیں۔ یہاں خوبانی کے تین چار درخت ایسے موجود ہیں جو بٹے ہوئے لگتے ہیں جس طرح دو تین ڈوریوں کو بٹنے سے رسی بنتی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ درخت مرزا کچٹ نے چترال سے لاکر یہاں لگائے تھے۔ ایک فرسودہ کھیت میں ایک ٹنوں وزنی پتھر کے اوپر ایک اور بڑا پتھر رکھا ہوا ہے جو ایسا لگتا ہے جیسا اونٹ بیٹھا ہو۔ اس کے بارے میں بھی بتایا گیا کہ اوپر والے پتھر کو مرزا کچٹ نے یہاں رکھا تھا۔ اسی طرح ایک نصف دائرے کا فرسودہ تالاب بھی یہاں موجود ہے جو دیو ہیکل پتھروں سے بنایا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ تالاب بھی مرزا کچٹ کی تعمیر تھا۔ واللہ اعلم!

برانداس سے ایک ذیلی وادی مغرب کی طرف موجود ہے جسے وادی تھوئی بتایا گیا جو یارخون چترال کے گاؤں گزین سے درہء تھوئی کے ذریعے ملا ہوا ہے۔ فیض امان صاحب نے بتایا کہ برانداس سے تھوئی گاؤں تین گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ ہم نے ارادہ کیا اگر اللہ نے زندگی کی مہلت دی تو اگلے سال گزین میں رات گزار کر براستہ تھوئی ویشرگوم جاؤں گا، انشا اللہ!
برانداس سے ہم نے ڈاکٹر فیض امان اور ان کی بیگم صاحبہ سے رخصت کی اور گلگت واپسی کا سفر شروع کیا۔
(جاری ہے)


 

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ