جی ‏بی ‏کا ‏ضلع ‏غیرز

گلگت بلتستان کا ضلع غیرز (غذر)
ہم چترال والے اپنے مشرقی پڑوسی علاقہ غذر کو 
"غیرز" بولتے رہے ہیں۔ 1914 تک غیرز اور بالائی چترال کے مستوج کٹورو حکمرانوں کے ماتحت ایک علیحدہ ریاست کی حیثیت رکھتے تھے جس پر خوشوقت کی اولاد حکمران رہی تھی۔ 1914 میں انگریزوں نے مہتر چترال شجاع الملک کی نو عمری سے فائدہ اٹھا کر غیرز کو مستوج سے الگ کرکے گلگت کے ساتھ شامل کر لیا۔ حسب وعدہ سرکار ہند مہتر سر ناصر الملک اور مہتر مظفر الملک نے غیرز کی سابق پوزیشن بحال کرنے کے لیے کوششیں کیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ اہل چترال کا دعویٰ اب بھی زندہ ہے۔
غیرز اور چترال کی ثقافت معمولی فرق کے ساتھ  مشترک ہے۔ غیرز میں بھی ایک کثیر تعداد کھوار زبان بولتی ہے۔ رسم و رواج، شادی بیاہ کی رسمیں،مکانات کی طرز تعمیر، خوراک، پہناوا غرض ہر چیز مشترک ہے۔ ایک ہی نسل و قوم کے افراد دونوں علاقوں میں بستے ہیں۔ اہلیان چترال اور غیرز  کے درمیان رشتے داریاں ہوتی رہی ہیں۔ رشتے داری کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ضلع غیرز میں چترال سے ہجرت کرنے والوں کی بھی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ اس لیے چترال والوں کے لیے غیرز کوئی اجنبی علاقہ نہیں لگتا۔
غیرز کا ضلع ، گلگت خاص کی طرف سے گلاپور گاؤں میں جدا ہوتا ہے۔ مغرب میں گاؤں بارست آخری بستی ہے۔ ساری وادی گنجان آبادی پر مشتمل ایک خوبصورت علاقہ ہے جس کے اندر دایاں ہاتھ میں وادئ اݰقمین (اشکومن) اور یسین  کی ذیلی وادیاں جبکہ بائیں طرف داریل کا علاقہ ہے۔ میں اپنی حالیہ سیر کے دوران غیرز کی تحصیل یسین تک جا پایا۔ اݰقمین اور داریل پھر بھی رہ گئے۔ 

 غیرز کو میں غذر نہیں لکھوں گا کیونکہ میں نے غیرز کے چند بزرگوں سے پوچھا تو انہوں نے بھی "غیرز" نام کی تصدیق کی اور بتایا کہ غیر اہل زبان سرکاری اہل کاروں نے نام کو بگھاڑ کر"غذر" بنا کر رکھدیا ہے۔ اسی طرح "یسین" کو ( دوسری "ے" یائے مجہول کو یائے معروف بناکر)  یاسین بنا دیا ہے۔ اݰقمین کے بارے اہل اشکومن بتا سکتے ہیں۔ ہم یسین کو ویشرگوم (ورشگوم) بھی بولتے رہے ہیں۔ یہاں کے باشندوں کو ویرشیک کہتے ہیں۔
ہمارے چترال میں بھی گاونوں کے ناموں کو کچھ کا کچھ کر دیا گیا ہے۔ میں نے اپنی منظوم تصنیف "ݯھترار نامہ" میں چترال کے گاؤنوں کے ناموں کو روزمرہ تلفظ کے مطابق لکھنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر دروس کو دروش، اویون کو آئین ژوغور کو جغور، سونوغور کو سنوغر، میستوچ کو مستوج، ڑاسپور کو لاسپور وغیرہ وغیرہ لکھا اور پڑھا گیا ہے۔  ہمیں اپنے گاونوں کے ناموں کو اپنے یہاں کے مستعمل تلفظ میں لکھنا چاہیے تاکہ اصل نام زندہ رہ سکیں۔ اور ان کی مدد سے مستقبل کے محققین کو علاقے کی تاریخ کا پتہ لگانے میں مدد مل سکے۔

جب میں نے ضلع غیرز کے ہر گاؤں کا بغور مشاہدہ اور نظارہ کیا تو مجھے ایسا لگا کہ آج تک گلگت اور بلتستان والے بلکہ جملہ اہل ملک نے اس علاقے کی تعریف و توصیف میں بخل سے کام لیا ہے۔ قدرت نے اس علاقے کو جو حسن بخشا ہے اور جن نعمتوں سے مالامال کیا ہے ان کا احاطہ کرنا مجھ جیسے اردو کے معمولی طالب العلم کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ہر ایک بستی، ہر گاوں،ہر ایک آبشار، ہر ایک جھیل، ہر چشمہ، ہر ندی نالہ، دریا، ہر پھل دار اور غیر پھلدار درخت، لینڈ سکیپ، پہاڑ، پہاڑیاں غرض اللہ کی ہر تخلیق  آپ کو اپنی طرف کھینچتا ہوا  اور  آپ کو جھنجوڑتا ہوا لگتا ہے کہ "خدا کے بندے! اپنے خالق کی اس حسین و جمیل تخلیق کی تعریف کیے بغیر تو کیسے گزر سکتا ہے؟"
میرا دل چاہتا تھا کہ ہر گاؤں میں ٹھہروں، پھیروں، لوگوں سے ملوں، پرانے گھروں کو دیکھوں، لوگوں کی مہمان نوازی کا لطف اٹھاوں، گاؤں کی تاریخ بڑے بوڑھوں سے معلوم کروں اور اپنے پاس معلومات کا ذخیرہ جمع کروں، پھر آگے بڑھوں۔ ایسا ممکن نہیں تھا۔ ڈاکٹر زبیدہ سرنگ اسیر نے بمشکل ایک دن کے لیے اپنی مصروف ترین کلینک سے چھٹی کی تھی۔ اتوار کے ساتھ دو دن اور ایک رات میرے پاس تھے۔ اتوار کا دوپہر جناب قمر شہزاد سابق کمشنر (ر) کے نام تھا جو اپنے گاؤں کے آبائی گھر واقع جپوکئے میں ہمارے منتظر تھے۔ اگلی رات اپنے ایک اور بہت پیارے دوست ڈاکٹر فیض امان میجر (ر) کے ہاں گاؤں بھرکولتی، یسین میں گزارنے کا پروگرام بنا تھا۔
گلگت سے صبح آٹھ بجے نکلے تو بسین گاؤں سے شروع کرکے اطراف کے مناظر سے محظوظ ہوتا ہوا سڑک کیساتھ واقع گاؤں ہینزل، شروٹ تھینگی، شروٹ، دریا پار برگو، پھر شکیوٹ، بیار چی اور گچ پہنچ کر دریا پار جپوکئے پل غبور کرنے کے بعد تھوڑی سی چڑھائی چڑھ کر ہم  قمر شہزاد صاحب کے دولت خانے پہنچ گئے۔ قمر شہزاد صاحب اور ان کے فرزند ارجمند کمال الدین ڈی سی ہنزہ کو منتظر پایا۔ گھنے درختوں میں چھپا ہوا خوبصورت باغ میں بیٹھ کر علاقے کی تاریخ اور جغرافیہ کے متعلق قمر صاحب سے معلومات جمع کرتا رہا۔ ان کی دہیمی گفتگو سے لطف اندوز ہوتا رہا۔کم و بیش تین گھنٹے ان کے ساتھ گزارے۔ دوپہر کا کھانا ان کے منقش بائبݰ ختان (روایتی گھر جسے کھوار میں بائبݰ کہتے ہیں) میں بیٹھ کر پیٹ بھر کر کھایا۔ محترمہ بھابی صاحبہ (بیگم قمر) نے نوع بنوع خوردونوش کا اہتمام کیا تھا۔ ایک سے ایک پر ذائقہ اور اشتہا خیز تھا۔خاص کر ٹراؤٹ مچھلی جس طرح پکائی گئی تھی اس کا ذائقہ عمر بھر منہ کو لذت اور مشام کو فرحت بخشتا رہے گا۔ کاش! برخوردارم پروفیسر شفیق احمد ساتھ ہوتا تو ان کی تعریف وتوصیف کا حق بھی ادا کرتا اور اس شاہانہ طعام کے ساتھ بھی پورا انصاف کر پاتا۔ آج برخوردارم صاحب کریم خان کی کمی بھی شدت سے محسوس ہو رہی تھی ۔ وہ اپنی مصروفیت کے باعث ہمارے ساتھ نہیں تھا۔ صاحب کریم  بھی مرغ مرغن مسلم  پسند اور حق طعام ادا کرنے والوں میں سے ایک مجاہد ہے۔ 
قمر صاحب نے رات اپنے ہاں گزارنے کی دعوت پر بہت اصرار کیا مگر افسوس وقت کی کمی تھی ورنہ ان کے ساتھ شب بسری بہت بڑی یادگار ہوتی۔ ہم نے قمر شہزاد صاحب کو چترال آنے کی دعوت دی جو انہوں اگلے سال آنے کا وعدہ کیا اگر زندگی رہی۔ قمر صاحب غالباََ 2010 میں برستہ بروغل وادی یارخون سے گزرے تھے۔ اس وقت وہ ضلع غذر کے ڈی سی تھے اور قرنمبر جھیل کے پاس اشکومن اور بروغل کی ٹیموں کے لیے ٹورنامنٹ کا انعقاد کرایا تھا۔ واپسی پر بارڈر پولیس کے صوبیدار حاکم خان مرحوم، برادر خورد مرزا رافع مرحوم ساکن لشکر گاز  بروغل  کی دعوت پر لشکر گاز آئے تھے اور وہاں سے براستہ یارخون ، لاسپور اور شندور غیرز واپس ہوئے تھے۔ یہ سفر ان کے لیے کوئی خوشگوار نہیں رہا تھا کیونکہ ان کو لشٹ یارخون سے بارست تک کسی کٹھارہ ٹیکسی جیب میں سفر کرنا پڑا تھا اور ٹیکسی ڈرائیور نے بارست پہنچا کر 28 ہزار روپے نقدوصولے تھے۔ سن نوے کی دھائی میں چترال خاص کو بھی سرسری دیکھ پایا تھا جب شندور ٹورنامنٹ کے اختتام پر ضلعی انتظامیہ چترال کی دعوت پر صرف ایک رات گورنر ہاؤس چترال میں بسر کرکے صبح سویرے واپس ہوئے تھے کیونکہ اچانک ایسا کوئی ضروری سرکاری کام پیش آیا تھا۔ 
غیرز کے گاؤنوں کے مکانات درختوں میں روپوش ہیں۔ ہر گاؤں گنجان آباد یے۔ گاہے گاہے اونچے مکان درختوں کی آڑ سے جھانکتے ہوئے نظر آئیں گے۔ غیرز کی بڑی وادی کافی  کشادہ ہے۔ دریا کے دونوں اطراف میں گاؤں آباد ہیں۔ کہیں کہیں ہمارے کاربتیڑی اور کڑاک جیسے تنگ مقامات بھی آتے ہیں۔ غیرز کا دریا بھی صاف ستھرا ہے۔  پرامن انداز میں رواں دواں رہتا ہے۔ دریائے یارخون، مستوج اور چترال کی طرح آس پاس کی آبادی کو برباد نہیں کرتا۔ قدیم سے جس گزرگاہ سے گزرتا رہا ہے صرف اسی پر قابض ہے البتہ ندی نالوں کی بے رہروی سے خھلتی اور سوسوت کے کچھ حصے زیر آب آگئے ہیں ۔ وہ بھی جھیل بن کر علاقے کی خوبصورتی میں اضافہ اور سیاحوں کی دلچسپی کا سبب بن گئے ہیں۔ (جاری ہے)


Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ