غیرز۔۔۔2

غیرز۔۔۔2
وادئ یسین ( ویشرگوم)
جناب قمر شہزاد صاحب سے رخصت لے کر گاوں جہوکئے سے چل پڑے تو وقت بعد دوپہر پونے چار بج چکے تھے۔ گوپیڅ (گوپیس) کے آغاز پر ہم اپنی دائیں طرف یسین کا پل غبور کرکے وادی یسین کا رخ کیا۔ پہلا گاؤں سیلی ہرنگ نام کا آگیا۔ خوبصورت گاوں لگا۔ پھر گاؤں  بلتر، دملگن ، گندائے، زیارت، بجیوٹ، منچی، یسین خاص ایک سے ایک دلکش لگا۔ کھلی وادی  دریا پار سندھی کا وسیع و عریض سرسبزو شاداب گاوں اور مڈوری قلعہ اور روڈ ویز طاوس کا ہموار خوبصورت گاؤں درست معنوں میں مور جیسا حسین ہے۔ یہاں شام ہونے لگی۔ سلطان آباد اور برانداس کے گاؤں شام کے دھندلکے میں اچھی طرح نہ دیکھ سکا۔ شام گزرنے کے بعد ہم میجر ڈاکٹر فیض امان کے گاؤں میں داخل ہوئے۔ یہاں ایک مسلہ یہ پیدا ہوا کہ ٹیلی نار کی سروس ختم ہوگئی اور فیض امان صاحب سے رابط ممکن نہ رہا۔ یہاں ایس کم کی سروس موجود ہے لیکن ہمارے پاس اسی کم کی سم نہیں تھی۔اب ہمیں ہر راہگیر سے اپنے میزبان کے گھر کا اتہ پتہ پوچھنا پڑا۔ اس پوچھ گچھ کے دوران  ایک ڈبل سواری موٹر سائکل کو اور ٹیک کیا ہمارے نوجوان پائلٹ منیر شمس نے اور پھر بریک لگایا تو میں نے ان موٹر سوار جوانوں سے فیض امان صاحب کے گھر کا پوچھا تو موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھے جوان فوراً اتر آیا اور سلام دعاء کے بعد اپنا تعارف کرایا تو کچھ یوں تھا، " حمزہ خان ولد شیرولی قوم زوندرے" میں نے کہا، بیٹا! ہم بھی زوندرے ہی ہیں اور نام میرا بھی شیرولی ہے" اس نے از راہ تفنن کہا،" تو زوندرے آوا زوندرے استورو کا ہون دوئے؟" میں نے کہا، "فی الحال گھوڑے پر زین کسنے کا مسلہ نہیں ہے البتہ تم ہمیں میجر فیض امان کے گھر ضرور پہنچاوگے" کہنے لگا، "بسر چشم میں آپ کی رہنمائی کروں گا۔ میجر صاحب میرے رشتے دار ہیں" ساتھ ہی کل واپسی پر اپنے گھر دعوت بھی دی۔ ان کی دعوت کی قبولیت اور برادری کے بھائی بندوں سے ملاقاتیں مجھ پر قرض رہیں۔
فیض آمان صاحب بھی راستے میں ایک دکان پر ہمارے منتظر تھے مگر ہم نے ان کو انجانے میں کراس کر گئے۔ جب ہم ان کے صحن میں داخل ہوئے تو بھابی صاحبہ، بیگم فیض امان نے ہمیں خوش آمدید کہا اور خواتین کا لمبا چوڑا معانقہ شروع ہوا۔ اسی اثناء میں ڈاکٹر صاحب بھی ہمارے پیچھے پیچھے پہنچ گئے تو ہم بھی کافی طویل بغلگیر رہے۔ فیض آمان صاحب سفید براق سر و داڑھی کے ساتھ دیہاتی بزرگ لگ رہے تھے۔ 
میجر (ر) ڈاکٹر فیض امان اور ان کے خاندان کے ساتھ ہماری دوستی کم و بیش 28 سال پرانی ہے۔ سن انیس سو نوے کی دھائی تھی، ہم دونوں دروش میں اپنے اپنے پیشوں سے منسلک تھے۔ ہم دونوں کے بچے آرمی پبلک اسکول دروش میں پڑھتے تھے۔ پہلے بچوں میں دوستی ہوگئی۔ حسن اتفاق سے ہماری بیٹیاں ڈاکٹر ربیعہ امان اور ڈاکٹر زہرہ ولی خان ہمعمر اور ہم جماعت تھیں۔ اس وقت دونوں گائناکالوجسٹ ہیں ۔ رابعہ امان سے چھوٹی ڈاکٹر پونیر آمان ماہر امراض جلد اور میری بچی ڈاکٹر زبیدہ سرنگ اسیر  آئی سپشلسٹ ہم عمر اور کلاس فیلو تھیں جب کہ ان کا بیٹا بلال امان اور میری سب سے چھوٹی بچی ڈاکٹر رئیسہ خان کلاس فیلو تھے۔ ان بچیوں میں گہری دوستی ہوگئی تھی۔ ہمارے یہ سارے بچے سب کے سب ذہین و فطین تھے اور اسکول کے پوزیشن ہولڈرز تھے۔ ڈاکٹر فیض امان کی ایک دوسری بچی ملکھون امان بھی ڈاکٹر ہے اور یو کے میں ہے۔
 دروش چترال میں ہمارا ملنا جلنا دوستی میں بدل گیا جو بفضل خدا آج بھی قائم ہے۔۔ بطحوں کا شکار ہم دونوں کا مشترکہ مشغلہ ہوا کرتا تھا۔  ایک ساتھ اوڅھیاک میں شکار کھیلنے جایا کرتے تھے۔ کوئی چار سال ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا،ملنا جلنا رہا۔ یوں آپس میں دوستی کا تعلق گہرا ہوگیا۔  فیض صاحب انتہائی شریف اور سادہ مزاج کے انسان ہیں۔ حد درجے کے ملنسار، قدردان اور وفادار  ہیں۔ ان میں پیار محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ ان کی اہلیہ ہمارے لیے سگی بہن جیسی ہیں۔  بہت ہی زیادہ منکسر المزاج اور پرخلوص خاتون ہیں۔ میرے بچوں کی ہردلعزیز  آنٹی ہیں۔ ویسے قومیت کے لحاظ سے فیض امان صاحب چترال کی پنین شوئے قوم سے تعلق رکھتےہیں۔ ان کا پڑدادا چترال سے یسین ہجرت کر گیا تھا۔ ان کی بیگم کا تعلق محمد بیگے خاندان سے ہے۔ ان کا خاندان کراچی میں مقیم ہے ۔ چونکہ محمد بیگ اور محمد رضا سگے بھائی تھے اس لحاظ سے میری بیگم اور بیگم فیض امان میں سات آٹھ پشتیں دور چچازاد بہنوں کا رشتہ انہیں مزید ایک دوسرے کے قریب لایا تھا۔  خواتین مردوں کے مقابلے میں ان رشتوں کا بہت خیال رکھتی ہیں۔ بیگم فیض امان اور میری بیگم بھی اس سلسلے میں آگے آگے رہتی ہیں۔
فیض امان صاحب نے اپنے گاؤں بھرکولتی میں ایک خوبصورت سا گھر بنایا ہوا ہے۔ ابھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ کوئی ایک ڈیڑھ کنال کا یہ گھر گھاس کے قطعوں اور اقسام و انواع کے پھولوں کی کیاریوں سے مزین ہے۔ ان کے بچے سارے گھر سے باہر ہیں۔ گھر میں فیض امان صاحب ان کی اہلیہ اکیلے رہتے ہیں البتہ بھائی، بھتیجے اور بتھیجیاں قریب رہتے ہیں اور انہیں اکیلاپن سے بچائے رکھتے ہیں۔ ان میاں بیوی کی گھونسلہ سازی کی مصروفیات بھی ان کو مصروف رکھی ہوئی ہیں کیونکہ دونوں اس نئے گھر کی آرائش و زیبائش میں ہمہ تن لگے ہوئے ہیں۔
ہم سات بندے ان کے مہمان بن بیٹھے تھے۔ ہمارے لیے کھانا تیار کرتے کرتے بیگم فیض امان صاحبہ یقیناً تھک گئی ہونگی لیکن ان کے چہرے پر بشاشت تھی۔ وہ ہمیں مہمان بناکر بہت خوش تھیں کیونکہ کوئی پچیس سال بعد ہماری ملاقات ہوئی تھی۔ مجھے ان کو زحمت دیتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا تھا تاہم میاں بیوی کے چہروں پر خوشی دیکھ کر اطمینان سا ہوا۔
بہن کے ہاتھ کا کھانا بڑے مزے کا تھا۔ ہم نے جی بھر کے کھایا۔ رنگ رنگ کے میوے بھی زیب دسترخوان تھے خاص کرکے ناشپاتی ( چانیغان، امروز) اتنے رسیلے تھے کہ بیاں نہیں کرسکتا۔
صبح ناشتے کے بعد میجر ڈاکٹر فیض امان اور ان کی اہلیہ ہمیں لے کر لالک جان شہید (نشان حیدر) کے مزار پر حاضری دینے ہوندور کی طرف گئے۔ اس سے پہلے وہ تاریخی پولو گراؤنڈ لے کے گئے جہاں مہتر میر ولی پولو کھیلا کرتے تھے۔ گراؤنڈ کی دونوں طرف گورنمنٹ ہائی اسکول کی عمارت قائم ہے۔ ہیڈ ماسٹر کی رہائش گاہ کے صحن میں ایک پتھر ہے جس پر مہتر موصوف کے ہاتھ کی کندہ تحریر موجود ہے جس پر صرف تاریخ اور سن کندہ ہے یعنی "ذلحج 6
1280" (تصویر نیچے دی جاتی ہے بشکریہ ناظم شاہ کیمسٹ)
یہاں ہماری ملاقات اسکول کے ہیڈ ماسٹر اور فیض امان صاحب کے بھائی ایس ایس ٹی استاد سے ہوئی۔ انہوں نے چائے پلانے کی پرخلوص پیشکش کی لیکن ہم نے معذرت کی۔ 
ڈاکٹر فیض امان کے مطابق گاؤں کا نام بھی مہتر میر ولی نے ہوندور رکھا تھا کیونکہ یہ گاؤں ( ہون) سیلاب کی زد میں تھا اور ہے۔  گاؤں کے سامنے دریا پار ایک ٹیلے کے اوپر ایک پولو گراؤنڈ کی نشاندھی کی فیض امان صاحب نے اور بتایا کہ مہتر میر ولی وہاں بھی پولو کھیلا کرتا تھا۔ انہوں نے اس گراؤنڈ کے قریب ایک ٹیلے پر کھنڈرات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بتایا کہ اس کا نام "قلمقو کھن" ہے جس کے معنی قلمق کا قلعہ ہوتا ہے۔ قلمق نام کے کسی قدیم قبیلے کے متعلق یارخون کے گاؤں بانگ میں بھی ایک نہر کا نام  ہے جسے زوندران یارخون کے جد امجد نے قلمق کے حملہ آوروں کو مغلوب کرکے ان سے کھدوائی تھی۔

گلگت بلتستان کے فخر، جانباز حوالدار لالک جان شہید ( نشان حیدر) کا تعلق اس گاوں سے ہے اور یہاں  اس کا مزار گاؤں کی شان ہے۔ حوالدار لالک جان 7 جولائی 1999 کو کارگل سیکٹر میں دشمن کے ہے در پے حملوں کو کئی دنوں تک بہادری سے پسپا کرتے ہوئے دشمن کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا تھا۔ دشمن کی گولیوں سے شدید زخمی ہونے کے باوجود اس نے اپنا مورچہ نہیں چھوڑا تھا اور  اپنے مورچے کا دفاع کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اور نشان حیدر کا اعلے ترین فوجی اعزاز اپنے نام کیا تھا۔ ہم نے لالک جان شہید کے مزار پر فاتحہ پڑی۔ پاک آرمی نے مزار کی اعلے پیمانے پر آرائش و زیبائش اور دیکھ بال کا اہتمام کر رکھا ہے۔
(لالک جان شہید (نشان حیدر) فوٹو بشکریہ ڈاکٹر زبیدہ سرنگ اسیر)
پاک آرمی نے ان کے نام سے ایک آرمی پبلک اسکول اینڈ کالج قائم کیا ہے جو وادی یسین کے نو نہالوں کو معیاری تعلیم سے فیض یاب کر رہا یے۔ مجھے اس ادارے کے اندر جانے اور ادارے کی انتظامیہ سے بات چیت کا موقع ملا۔ یہ درس گاہ 2009 کو قائم ہوئی تھی۔ 2010 میں ہوندور نالے میں سیلاب نے عمارت کو شدید نقصان پہنچایا تھا جس کی بحالی 2011 میں مکمل ہوئی تھی۔ یہ ادارہ فوج کی سرپرستی میں کام کر رہا ہے۔ فوج کی طرف سے ایک این سی او یہاں ڈیوٹی پر موجود ہوتا ہے۔ آج مسٹر ظفر این سی او سول لباس میں ڈیوٹی پر حاضر تھا۔ اس نے  ادارے کے متعلق ہمیں پوری بریفنگ دی۔ (جاری ہے)



Comments

Popular posts from this blog

شرط بزرگی

باران رحمت کی زحمت

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ