وادئ ‏ہنزہ ‏و ‏نگر۔۔۔ ‏3 ‏

وادئ ہنزہ و نگر۔۔۔3
کاشانہء شناور ( floating cottage)
شمال مغرب کی طرف دریائے ہنزہ کے اس پار مرحوم عطا آباد کی طرف دیکھ کر دل دکھی ہوا۔ سینکڑوں فٹ اونچے ٹیلے پر آباد اس گاؤں کے پھسلنے اور دریائے ہنزہ کی راہ روکنے کی جانکاہ خبر نے ہم سب کے دل افسردہ کر دیا تھا۔ یہ ہولناک واقعہ جنوری  2010 میں پیش آیا تھا جس میں 19 قیمتی جانیں ضائع ہوئی تھیں اور پورا گاؤں غرق آب ہوا تھا۔  پانج چھ سالوں تک ہنزہ کا بالائی حصہ یعنی گوجال عملا دنیا سے کٹ گیا تھا۔ عطا آباد سطح دریا سے کم و بیش پانج سو فٹ اونچا ہوگا۔ اس وقت یہ جگہ ایک بے گیاہ ڈھلان ہے۔ نیچے دریائے ہنزہ کا پانی کوئی دس کلومیٹر لمبی جھیل میں بدل گیا ہے۔ یہ جھیل نیلے آسمان کا ٹکڑہ بر سر زمین لگتی ہے۔ بتایا گیا کہ جب دریائے ہنزہ اس ہولناک لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آکر بہنے سے رک گیا تو یہ جھیل کم از کم 27 کلومیٹر تک پھیل گئی تھی اور جس میں گاؤں آئین آباد مکمل اور ششکت کا بڑا حصہ ڈوب گیا تھا۔ بند کو توڑ کر پانی خارج کرنے ساری تگ و دو ناکام ہوگئی تو حکومت چین کی مدد سے سرنگ نکالا گیا جو اس وقت کے کے ایچ کا حصہ ہے۔ 
عطا آباد جھیل کے جنوب مشرق میں ہمالیہ کے عمودی پہاڑی سلسلے کے دامن کے ساتھ مہمان خانے، طعام گاہیں، دکانیں اور جھیل کے کنارے کے ساتھ  کشتیوں کا ہجوم دیکھ کر یوں لگا کہ عطا آباد کی تباہی اس وادی کے لیے ایک طرح سے بلیسنگ ان ڈسگائس تھی۔ اس وقت یہاں ہزاروں افراد کاروبار کرنے لگے ہیں۔ مقامی اور غیر مقامی سیاحوں کا ایک ہجوم سا ہے۔ وادی ہنزہ کے جفاکش عوام معاشی ترقی کے نئے دور میں داخل ہوچکے ہیں۔
عطا آباد جھیل پر سری نظر دوڑاتے اور مجموعی طور پر کوئی دس بارہ کلومیٹر لمبے سرنگوں سے گزر کر ہماری گاڑی کہیں تھوڑا کشادہ اور کہیں تنگ مقامات سے گزرتی رہی۔ سڑک کے کنارے استادہ کتبوں کے سہارے اور بعض جگہ مقامی لوگوں سے پوچھ کر ان کے نام ذہن نشین کرنے کی کوشش میں رہے۔ ششکت گاؤں بڑا پیارا سا لگا۔ پست قد درختوں کے باغات نے اس گاؤں کو حسن بخشا ہے۔ آگے چمن گل، گلمت،گلکین،حسینی،زاراباد،پاسو،خیبر، بتورہ گلیشر ( ہمارے بائیں ہاتھ قریب ہی نظر آیا) پھر 
مورکھون، گیرچہ،سوست تک جاکر واپسی کا ارادہ کیا کیونکہ وقت کم پڑتا جا رہا تھا۔ عصر کے وقت حسب وعدہ ہمیں قمر شہزاد صاحب کے ساتھ "ڈلفن رزورٹ" آئین آباد میں ہونا تھا جسے میں نے بعد میں کاشانہ شناور کہا۔ گوجال کے یہ سارے گاؤں خوب آباد اور دلآویز نظر آئے۔ پست قد درختوں کے باغات پھلوں سے لدے تھے۔ سڑک کے کنارے خشک و تر میووں کے اسٹال لگے تھے۔ چھوٹے بڑے، مرد خواتین ہر کوئی کاروبار میں مشغول و مصروف تھا اور یہ اس علاقے کی ترقی کا راز ہے۔
عصر کے وقت ہم واپس عطا آباد جھیل پہنچ گئے۔ چند منٹوں کے لیے سیاحوں کے ہجوم کا حصہ بن کر جھیل کا نظارہ کیا۔ چھوٹی بڑی کشتیاں نیلی جھیل کے سینے پر تیر رہی تھیں۔ مہم جو جوان سیاح موٹر بوٹس کی تیز رفتار دوڑ کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ اسی اثناء قمر شہزاد صاحب کا فون آیا اور ہمیں ڈلفن رزورٹ، آئین آباد پہنچنے کا کہا۔ ہم ایک چھوٹے سرنگ سے گزر کر بائیں ہاتھ مڑ کر کوئی پچاس ساٹھ فٹ اترائی اتر کر نیچے قدیم سڑک کے ٹکڑے پر آگئے۔ یہاں بہت سی عمارتیں زیر تعمیر تھیں۔ سامنے ایک بڑا سا ہوٹل جھیل کے اندر گھسا ہوا نظر آیا تو ہم سیدھا وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ اس کا نام لکسس ہے اور کسی لاہوری مالدار آدمی کی ملکیت ہے۔ یہ خبر اچھی نہ لگی کیونکہ شہر والے یہاں آکر  غریب عوام کی معیشت پر قبضہ جمائیں گے تو یہ لوگ کہاں جائیں گے؟ ہماری منزل کوئی اور جگہ تھی جو ڈیڑھ دو سو گز نیچے تھی۔ ہم نے گاڑی واپس موڑ کر سڑک کے کنارے کھڑی کرکے بیس تیس قدم جھیل کی سمت پیدل چل کر  ایک چھوٹے سے  مکعب نما گھر کے سامنے پہنچے اور یہیں کھڑے اسے سحرزدہ نگاہوں سے دیکھتے رہے جو ہوا کے جھونکوں کے ساتھ ہلکے ہلکے ہچکولے کھا رہا تھا۔یہ گیسٹ ہاؤس سو فیصد پانی کے اوپر براجمان تھا ( اور ہے) اور جھیل کی سطح سے تین چار فٹ کا فاصلہ رکھتے ہوئے درجنوں مضبوط پلاسٹک ڈرموں کے سر پر سوار تھا۔ جھیل کے کنارے سے اسی نوعیت کا ایک پل اس سے جڑا ہوا تھا۔ مضبوط رسیوں کے ذریعے اسے کنارے کے ساتھ باندھ لیا گیا تھا۔ یہ کشتی نما گیسٹ ہاؤس اپنی نوعیت کی پہلی چیز تھی جس نے مجھے حیران کر دیا تھا۔ اگرچہ دبئی میں ہم نے بہت سارے " گشتی کشتی ہوٹل" دیکھا تھا جو خلیج کی سیر کراتا ہوا مہمانوں کے لیے شام کے خوردونوش کا اہتمام کرتے تھے اور بڑی بڑی کشتیوں میں قائم تھے۔ لیکن ہمارے عطا آباد کا یہ گیسٹ ہاؤس نہ صرف عمدہ طعام کا بندوبست کرتا ہے بلکہ رات بسری کے لیے بہترین کمرے بھی مہیا کرتا ہے۔ ایک سیاح یہاں پر نہ صرف جھیل کے اندر سیر سپاٹے کر سکتا ہے بلکہ بہترین کھانے پینے کے ساتھ ساتھ پرسکون اور پرفریب شب باشی کا لطف بھی اٹھا سکتا ہے۔ اس رزورٹ کی چھت پر بیٹھ کر پوری جھیل اور چاروں اطراف کے مناظر کا نظارہ گویا ایک فسون کا سا تجربہ محسوس ہوتا ہے۔ رزورٹ کی ایک فرشی نشست گاہ جو علاقے کی ثقافت کے عین مطابق ہے، دو ڈبل بیڈ بیڈ روم اور ہر کمرے کے ساتھ ایک ٹیرس اور واشنگ روم موجود ہے۔ یہاں پوری طرح رومانوی ماحول مہیا ہے۔ یہ" کاشانہ  بر سطح آب نیلگوں" نہ صرف ہنی مون منانے والی جوڑیوں کے لیے ایک نایاب تخفہ ہے بلکہ پیار کرنے والی سن رسیدہ جوڑیوں کو بھی عہد جوانی  کا نظارہ کرانے والا  ماحول رکھتا ہے۔ میں اس کے خالق و مالک غلام مصطفے صاحب کے ذوق جمالیات کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس نے عطا آباد جھیل کے شایان شان بالکل ایک نیا تجربہ کیا ہے اور سیاحوں کے لیے انوکھی تفریح گاہ کا انتظام کیا ہے۔ ( جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ