وادی ‏ہنزہ ‏و ‏نگر ‏۔۔۔2

حسین اتفاق
ڈی سی ہنزہ اپنے گھر آئے مہمانوں سے معذرت کرتے ہوئے جب جانے لگے تو ان کے چہرے سے تاسف کا ایک طوفان سا اٹھتا ہوا لگا۔ ایک طرف ان کے گھر ان کے استاد کا استاد معہ اہل و عیال مہمان تھا تو دوسری طرف انتہائی ضروری سرکاری مہمان کسی آہم تقریب کو رونق بخشنے والے تھے جہاں ضلع کے اعلے انتظامی افسر کا موجود ہونا، معزز مہمان کا استقبال کرنا اور پروٹوکول دینا ان کے فرائض منصبی میں سر فہرست حیثیت کے حامل امور تھے۔ وہ ذہنی طور پر دو حصوں میں بٹے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں تسلیاں دیں کہ آپ بے فکر رہیے۔ ہم بے تکلف لوگ ہیں۔ ہمیں ان سرکاری معاملات اور مجبوریوں  کا بخوبی علم ہے۔ اتنے میں ان کی بیگم صاحبہ بھی سلام کے لیے حاضر ہوئیں۔ بڑی وضع دار خاتون لگیں گو کہ ہماری عمر کے حساب سے وہ  ابھی بچی ہی ہیں۔ مراسم آداب ادا کرنے کے بعد وہ خواتین کو لے کر زنان خانے چلی گئیں۔ میں سوچ میں پڑ گیا تھا۔ دل بہت خوش تھا کیونکہ ہماری تہذیب و ثقافت ابھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ تھی۔ اپنا ایک ڈپٹی کمشنر اکیسویں صدی میں بھی پوری طرح اپنی تہذیب و تمدن کا وراث آمین نظر آیا تھا۔ ان کے ضلعے میں صوبائی وزیر کی آمد کوئی اتفاق والی بات نہیں تھی۔ ان کا پروگرام ہفتوں پہلے بنا ہوا ہوگا۔ ہمارا ان کے گھر مہمان بننا اتفاق تھا۔ وہ گزشتہ شب اپنے استاد کو بتا سکتے تھے کہ ' سر! کل میرے یہاں صوبائی وزیر کی آمد ہے۔ میں آپ کے مہمانوں کو وقت نہ دے پاؤں گا' اس نے ایسی کوئی بات زبان پر لائے بغیر اپنے استاد کے استاد کو گھر مہمان بنانے کی بخوشی حامی بھرلی۔ میں اپنے ملک کے ایسے عظیم فرزندوں کو سلام پیش کرتا ہوں جو اپنی سرکاری فرائض کی احسن ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنی روایات کو بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
میں ان خوبصورت خیالات میں غلطان و پیچاں تھا۔ کسی نے سلام کیا۔ آنکھ اٹھا کر دیکھا تو چہرہ مہرہ جان پہچان کا تھا۔ دماغ کو کمال صاحب کے بارے غور و فکر سے ہٹا کر سامنے کھڑے دراز قد، جاذب نظر ہنس مکھ چہرے کے حامل شخصیت پر مرکوز کرکے نام اور ملاقات کا وقت معلوم کرنے کی کوشش میں بوڑھے دماغ پر زور دے رہا تھا کہ اس نے اس ناچیز کا نام لیا اور اپنا اسم شریف بھی گوش گزار کیا تو جاکر ان سے بغلگیر ہوا۔ کرونا ایس او پیز کو بھول گیا۔ دل کو دل سے خوب رگڑ رگڑ کر معانقہ کیا۔ اس خوشگوار اتفاق پر میں حیران ہی تھا کہ اس نے مزید انکشاف یہ کیا کہ مسٹر کمال ان کے فرزند ارجمند ہیں۔ تب میں نے کہا جیسا باپ ویسا فرزند! پھر جب میں نے ڈاکٹر زبیدہ کا تعارف کرانے لگا تو کہنے کگے، "بھائی! میں ڈاکٹر کا پیشنٹ ہوں" اس کو کہتے ہیں یکے بعد دیگرے حسین اتفاقات کا نزول، ماشاءاللہ! 
ہاں بھائی! یہ تھے اور ہیں جناب قمر شہزاد صاحب، سابق کمشنر بلتستان جن کا دولت خانہ گاہکوچ، ضلع غذر میں ہے اور جو حسن اتفاق سے ان دنوں اپنی بیگم صاحبہ کے ساتھ اپنے بیٹے کے ہاں مہمان تھے۔ قمر شہزاد کے ساتھ ہماری ملاقات آج سے آٹھ سال پہلے سکردو میں ہوئی تھی۔ اکتوبر 2013 کے پہلے ہفتے اے کے آر ایس پی اور لوکل سپورٹ آرگنائزیشن نٹ ورک نے سکردو میں ایک یوتھ کنونشن کا اہتمام کیا تھا۔ جس میں ہمیں بھی شرکت کا موقع ملا تھا۔ بہت سارے دوستوں کے علاؤہ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، محمد صالح ایڈشنل اسسٹنٹ کمشنر مستوج، قاضی فضل مالک منیجر انسٹیٹیوشن ڈویلپمنٹ اے کے آر ایس پی چترال ہمسفر تھے۔ اس سفر کی مختصر روداد " بانگ سے بلتستان" چترال کے ان لائین اخبارات میں شائع ہوچکی ہے۔ جناب قمر شہزاد صاحب اس وقت بلتستان کے کمشنر تھے جبکہ راجہ فضل خالق آف چوئینج چترال سکردو کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ قمر شہزاد صاحب کے ساتھ سکردو میں تقریب کی افتتاحی تقریب میں پہلی ملاقات ہوئی تھی جب انہوں نے بطور مہمان خصوصی تقریب میں شرکت کی اور پھر شگر قلعے میں ضیافتوں کے دوران ان سے ملاقاتیں ہوئیں تھیں جن میں پاکستان کی لیجنڈری شخصیت، جناب شعیب سلطان خان چیرمین، رورل سپورٹ آرگنائزیشن نٹ ورک ( آر ایس پی این) شمع محفل تھے۔ ان ملاقاتوں کے بعد کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔ ان کا ہمیں یاد رکھنا ان کی قوت حافظ کا کمال اور گہری انسان دوستی اور محبت کا بین ثبوت ہے۔ قمر شہزاد صاحب گلگت بلتستان کے پہلے انتظامی آفیسر ہیں جن کو مقامی ضلع میں اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کی حیثیت سے خدمات کا بھرپور موقع ملا تھا حالانکہ انتظامی افسران کی مقامی علاقوں میں پوسٹنگ نہیں ہوتی تاکہ انصاف کے میزان پر کوئی آنچ نہ پائے۔ یہ امتیازی حیثیت ان کی انصاف اور اصول پسندی کی بین ثبوت ہے کہ عوام اور حکومتوں کو ان پر غیر مشروط  اعتماد تھا۔
کمال قمر کے ڈرائنگ روم میں جب قمر شہزاد صاحب کے ساتھ گفتگو کا آغاز ہوا تو مجھے لگا کہ ہمارا یک روزہ وقت بہت کم پڑے گا۔ چاشت کے پر تکلف خوردن و نوشیدن کے دوران کمشنر صاحب ایک ہی بات کہے جا رہے تھے کہ "آپ لوگ آج کہیں نہیں جائیں گے۔ دوپہر کا کھانا یہاں پر کھائیں گے اور شام عطا آباد جھیل کے اوپر تیرتے مکان میں گزاریں گے جہاں میرے ایک بہت اچھے دوست غلام مصطفے ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ زراعت گلگت نے دعوت دے رکھی ہے"۔ ہم نے اپنے ابھرے پیٹ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا،' کمشنر صاحب! ہم نے بیگم کمال صاحب کے پرتکلف" سنڈے برنچ" کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا ہے۔ مزید  کچھ ہضم کرنے کی گنجائش نہیں رہی ہے۔دوپہر کے کھانے سے معذرت کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ ہم نے پہلے ہی سے اپنے برخوردار جاوید صاحب کو اس بابت زحمت دی ہے جو نگر میں ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسر ہیں اور رہائش علی اباد میں ہے۔ شام کو عطا آباد جھیل کے کنارے ملاقات کا وعدہ کرکے اور وقت کی کمی کی مجبوری پیش کرکے ہنزہ وادی کا باقی مندہ حصہ دیکھنے کے لیے آگے چل پڑے۔ قمر صاحب اپنی نئی نویلی پراڈو گاڑی معہ ڈرائیور کے لے جانے کی پیشکش بھی کی تاکہ ان کے بقول صاحب کریم کو ڈرائیونگ سے رخصت ملے اور وہ بھی وادی کی سیر سے خظ اٹھا سکے۔ در اصل کمشنر صاحب اس بہانے ہمیں گھیرے میں رکھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ کہیں ہم عہد شکنی کرکے بھاگ نہ جائیں۔ ہم نے بصد شکریہ یہ پیشکش قبول نہیں کی کیونکہ ہمارے پاس بھی نئی پجیرو گاڑی تھی اور کریم کو چلانے میں مزہ آرہا تھا کیونکہ چھ فٹ کے اس لمبے تڑنگے آدمی کو آج تک اس کے قد و قامت کے موافق بڑی گاڑی چلانے کا موقع نہ ملا تھا ۔   قمر شہزاد صاحب نے اس انداز سے ہمیں رخصت کیا گویا ہم بہت دور کہیں جا رہے ہوں۔ جب تک ہماری گاڑی ڈی سی کی رہائش گاہ سے باہر نہیں نکلی تب تک وہ باہر کھڑے ہاتھ ہلاتے رہے۔ قمر شہزاد صاحب! تیرے احترام و توضع کو سلام! 
ضلع ہنزہ کا صدر مقام علی آباد بہت ہی خوبصورت قصبہ ہے جہاں ایک طرف ہموار زمینوں پر گھنے باغات دعوت نظارہ دیتے ہیں تو دوسری طرف اونچے عمودی پہاڑوں کے دامن پر پھیلے ہوئے سفیدہ کے ہمشکل و ہم قد درختوں کا دلآویز منظر سیاح کے پاؤں کی بیڑیاں بن جاتا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ سڑک کے کنارے کھڑے ٹک ٹک دیکھتا جاوں۔ سامنے نگر کا بہت بڑا گاؤں  سفید پوش رکاپوشی کا دامن چھوتا ہوا لگتا ہے۔ سفید بادلوں کے دبیز ململ کے دو پٹے ہوا کے جھونکوں پر رقصاں لگتے ہیں گویا پریوں کی شادی بیاہ میں شریک ہوں اور ناچ رہے ہوں۔
علی آباد سے شاہراہِ قراقرم ایک خوبصورت پل غبور کرتے ہوئے پھر مشرق کی طرف نکلتی ہے۔ یہاں سے نگر خاص کے لیے سڑک واپس مڑتی ہے اور قراقرم ہائی وے آگے بڑھتی ہے۔ علی آباد کے ساتھ ملحق کریم آباد گاؤں کا التت قلعہ دریائے ہنزہ کی گزرگاہ سے کم و بیش پانج سو فٹ اونچائی پر ایسے عمودی پہاڑی پر بنایا گیا ہے کہ میلوں دور سے دیکھ کر سر چکرانے لگتا ہے۔ اس سفر میں التت اور باکتت قلعوں کی سیر رہ ہم سے گئی۔ انشاء اللہ چند روز بعد انہیں دیکھنے جاؤں گا۔
 سڑک کے ساتھ گینش کا گاوں آتا ہے۔  یہاں سے ہم ایک بے آب و گیاہ  جگہے سے گزرے جو آج تک آباد کاری کی منتظر ہے۔ مجھے عجیب سا لگا کہ ہنزہ میں زمین قلیل ہونے کے باوجود اور اہل ہنزہ و نگر مثالی محنت کار ہونے کے باوجود یہ وسیع غیر آباد زمین اب تک زیر کاشت کیوں نہیں آئی ہے؟ پوچھیں تو کس سے؟ہم سب نابلد سیاح تھے- (جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ