آئرلینڈ یاترا۔۔۔27

آئرلینڈ یاترا۔۔۔27
وادئ ایووکا میں دوسری مشہور اور قابل دید جگہہ Avoca Mill ہے جہاں خالص اونی کپڑا بنا جاتا ہے. یہ کارخانہ 1723 میں دریائے ایووکا کےکنارے ایک کوآپریٹیو مل کے نام سے قائم کیا گیا تھا۔ وادی کے زمیندار/بھیڑوں کے گلہ بان  یہاں ملا کرتے، اپنی اون دھنتے، دھاگہ بناتےاور کھڈی پر کپڑا تیار کیا کرتے تھے۔ ان کا بنایاہوا دھاگہ بے رنگ اور کھردرا ہوتا تھا جس سے وہ دریاں اور کمبل تیار کرتے تھے۔
 اٹھارویں صدی کے دوران یہ وادی ایک مصروف اور متحرک کمیونٹی بن گئی اور تانبا، گندھک، سیسہ اور سونے کی کان کنی میں جت گئی۔ یہ کارخانہ گاؤں کی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ یہاں کان کنوں اور ان کے خاندانوں کے افراد کے لیے کپڑا تیار ہونے لگا اور خوراک کے لیے آناج بھی پسنے لگا۔
 اٹھارویں صدی کے وسط میں نکولاس ڈون نام کے کاروباری شخص نے اس کارخانے کا چارج سنبھالا اور اسے ایوکا وولن مل کے نام سے ترقی دی۔ وہ فوج اور رتھڈرم اور شکیلہ یونئینز کے لیے کمبل بنانے لگا۔ اس وقت تک پودوں اور جھاڑیوں سے اون رنگنے کا رواج ہوچکا تھا۔ اس نے سفید، سلیٹی اور سرخ رنگ کا اونی فلالین کپڑا تیار کرنے کی حد تک کارخانے کو ترقی دیدی۔
 کارخانے کے ریکارڈز کے مطابق 1915 میں یہاں ایک دری پندرہ شلنگ میں بیچی جاتی تھی۔
 1926 میں Whynne Sisters نے اس کارخانے کو چلانے کی ذمے داری اٹھائی۔ ان تین بہنوں نے 1937 میں کارخانے کو خرید لیا۔ انہوں نے حیران کن طور پر دلکش نئے ڈیزائین اور مختلف رنگ کے کپڑے تیار کرنے کی طرح ڈالی اور کاروبار کو بین الاقوامی سطح تک لے گئیں اور اپنا کپڑا اور دھاگہ یورپ اور امریکہ تک بیچنے لگیں۔ وہ فرانس اور انگلینڈ کے شاہی خاندانوں کو اپنے مصنوعات سپلائی کرنے لگیں۔ یوں اس وولن مل کو بین الاقوامی سطح پر شہرت مل گئی۔ وائین بہنوں نے شادیاں نہیں کیں۔ ان کی وفات کے بعد کارخانہ زوال پذیر ہوا۔
 1974 میں ڈونالڈ اینڈ ہیلری پریٹ نے اسے خرید لیا۔ انہوں نے اس میں زبردست جان ڈالی۔ تندہی اور سخت محنت کے ذریعے ترقی کی ایسی بنیادیں ڈالیں جو آج ایووکا وولن مل کے نام سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہاں اونی دھاگے سے شالیں، جرسیاں، کمبل، ٹوپیاں، جرابیں، مفلر الغرض پہننے اور اوڑھنے کی جملہ پوشاکیں بنتی ہیں۔ ان کے علاؤہ کھانے کی مختلف اشیاء بھی تیار ہوتی ہیں۔ 
 ہم نے سارا کارخانہ باہر شیشوں میں سے اندر جھانکتے ہوئےدیکھا کیونکہ کارخانہ بند تھا۔ اس کا چھوٹا میوزیم کھلا ملا جہاں قدیم زمانے کے کپڑے، دھاگے اور تصاویر کے علاوہ کپڑا بننے کی ایک پرانی مشین بھی تھی۔
 میں نے اس کا اسٹور بھی دیکھا جہاں تمام قسم کے مصنوعات برائے فروخت رکھے ہوئے تھے۔ میں ایک دوچیزوں کے نرخ ناموں  پر نظر دوڑائی تو سر چکرانے لگا۔ سوچا سب سے سستی چیز دیکھتا ہوں۔ میری نظرجرابوں پر پڑی۔ قریب جاکر قیمت دیکھی تو 12 یورو تھی۔ فوراً پاکستانی روپوں سے ضرب دی تو جواب آیا، "2064 روپے"۔ میں نے دل ہی دل میں کہا، نا بابا نا، چترال جاکر خریدو تو دس جوڑے آئیں گے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جرسی, شال دوسری پوشاکوں اور کمبلوں کی کیا قیمت ہوگی؟ 
                                               Avoca Woolen Mill آئرلینڈ میں کپڑے کا  قدیم ترین کارخانہ ہے جو امداد  باہمی کی بنیاد ہر وجود میں آیا تھا جبکہ دنیا میں اس وقت کوآپریٹیومومنٹ شروع نہیں ہوئی تھی۔ یہ کارخانہ دو سو ستانوے سال کی عمر گزارتے ہوئے ہنوز قائم اور 
   ترقی یافتہ بین الاقوامی کاروبار ہے اور دنیا کے قدیم ترین کارخانوں میں شامل ہے۔
  ہمارے چترال میں بھی کوآپریٹیو سوسائٹیز کی بنیاد غالباً ساٹھ کی دھائی میں پڑی تھی جب اسمعیلی فرقے کے امام ہز ہائی نس پرنس کریم آغا خان کی ہدایت پر اسمعیلی کونسل نے جگہہ جگہہ غیر رجسٹرڈ سوسائٹیز قائم کروائی تھی۔ ان سوسائٹیز نے جنرلسٹورز قائم کرکے چند سالوں تک چلائیں۔ اس کے بعد زوال پذیر ہوگئے۔ پھر سن اسی کے عشرے میں آغاخان رورل سپورٹ پروگرام کے تعاون سے دیہی تنظیمات کی بنیاد ڈالی گئی جو آج بھی قائم ہیں۔ انہوں نے بھی امام کے ویژن کے مطابق معاشی ترقی کا ہدف حاصل نہیں کر پائیں تاہم  معاشی حالت میں واضح بہتری ضرور آئی ہے۔  ان تنظیمات اور اے کے آر ایس پی کی بدولت زراعت کو کافی ترقی ملی، رابط سڑکیں اور پل بن گئے۔ پینے کو صاف پانی مہیا ہوا۔ جگہہ جگہہ منی ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کے ذریعے پن بجلی کی سہولت میسر آئی ہے۔ اس وقت چترال میں پندرہ بیس رجسٹرڈ مقامی امدادی تنظیمات کام کر رہی ہیں۔ اگر ان کی قیادت اہلیت والے فعال اور ایماندار لوگ سنھبال لیں تو یہ لوکل سپورٹ آرگنائزیشنز چترال کے روشن مستقبل کی ضامن ہو سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے ان کو بھی ہماری گلی سڑی سیاست کی نذر کی جا رہی ہے جو ان کے لیے زہر قاتل بن سکتی ہے۔ ( جاری ہے)
 
 

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی